مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ قربانى کا بیان ۔ حدیث 1425

عیدین میں خطبہ نماز کے بعد پڑھنا چاہے

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ سَعِےْدنِ الْخُدْرِیِّص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ ےَخْرُجُ ےَوْ مَ الْاَضْحٰی وَےَوْمَ الْفِطْرِ فَےَبْدَأُ بِالصَّلٰوۃِ فَاِذَا صَلّٰی صَلٰوتَہُ قَامَ فَاَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ وَھُمْ جُلُوْسٌ فِیْ مُصَلَّاھُمْ فَاِنْ کَانَتْ لَہُ حَاجَۃٌ بِبَعْثٍ ذَکَرَہُ لِلنَّاسِ اَوْ کَانَتْ لَہُ حَاجَۃٌ بِغَےْرِ ذَالِکَ اَمَرَھُمْ بِھَا وَکَانَ ےَقُوْلُ تَصَدَّقُوْا تَصَدَّقُوْا تَصَدَّقُوْا وَکَانَ اَکْثَرُ مَنْ ےَتَصَدَّقُ النِّسَآءُ ثُمَّ ےَنْصَرِفُ فَلَمْ ےَزَلْ کَذَالِکَ حَتَّی کَانَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَکَمِ فَخَرَجْتُ مُخَاصِرًا مَّرْوَانَ حَتّٰی اَتَےْنَا الْمُصَلّٰی فَاِذَا کَثِےْرُ بْنُ الصَّلْتِ قَدْ بَنٰی مِنْبَرًا مِّنْ طِےْنٍ وَلَبِنٍٍ فَاِذَا مَرْوَانُ ےُنَازِعُنِیْ ےَدَہُ کَاَنَّہُ ےَجُرُّنِیْ نَحْوَ الْمِنْبَرِ وَاَنَا اَجُرُّہُ نَحْوَ الصَّلٰوۃِ فَلَمَّا رَاَےْتُ ذَالِکَ مِنْہُ قُلْتُ اَےْنَ الْاِبْتِدَآءُ بِالصَّلٰوۃِ فَقَالَ لَا ےَا اَبَاسَعِےْدٍ قَدْ تُّرِکَ مَا تَعْلَمُ قُلْتُ کَلَّا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِےَدِہٖ لَا تَاْتُوْنَ بِخَےْرٍ مِّمَّا اَعْلَمُ ثَلٰثَ مِرَارٍ ثُمَّ انْصَرَفَ۔(صحیح مسلم)

" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بقر عید کے دن (عید گاہ) جاتے تو (پہلے ) نماز شروع کرتے جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو (خطبہ کے لئے) کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے، لوگ اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہے چنانچہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہیں لشکر بھیجنا ہوتا تو (اس وقت ) لوگوں کے سامنے اس کا ذکر فرماتے ہیں اور لشکر بھیجتے یا لوگوں کی کوئی اور حاجت ہوتی (یعنی مسلمانوں کے فائدہ کی کوئی بات ہوئی) تو اس کے بارہ میں حکم فرماتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے خطبہ کے دوران) یہ فرمایا کرتے تھے صدقہ دو ، صدقہ دو، صدقہ دو ، چنانچہ عورتیں زیادہ صدقہ خیرات یاد کرتیں تھیں ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان واپس تشریف لاتے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چاروں خلفاء کے دور خلافت میں نیز اس کے بعد تک بھی) یہی معمول جاری رہا ( کہ خطبہ نماز کے بعد ہوتا اور خطبہ منبر پر نہیں بلکہ زمین ہی پر کھڑے ہو کر پڑھا جاتا رہا) یہاں تک کہ (امیر معاویہ کی جانب سے مدینہ کا حکم ) مروان ابن حکم مقرر ہوا (ایک مرتبہ عید کے دن) میں مروان ابن حکم ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے عید گاہ آیا (جب ہم عید گاہ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ) وہاں کثیر ابن صلت نے مٹی اور کچھی اینٹ کا منبربنا رکھا تھا۔ اچانک مروان مجھے اپنے ہاتھ کے سامنے کھینچنے لگا گویا وہ مجھے منبر کی طرف کھینچ رہا تھا (تاکہ نماز سے پہلے خطبہ پڑھے) اور میں اس کو نماز کی طرف کھینچ رہا تھا (تاکہ وہ پہلے نماز پھر خطبہ پڑھے) جب میں نے یہ دیکھا کہ وہ پہلے خطبہ پڑھنے پر مصر ہے تو میں نے کہا کہ " ابوسعید ! جھگڑا نہ کرو، جس بات کو تم جانتے ہو اب وہ متروک ہے (یعنی میں نے مصلحت کے پیش نظر خطبہ سے پہلے نماز پڑھنا چھوڑ دیا ہے اور مصلحت یہ ہے کہ اگر خطبہ نماز کے بعد پڑھا جائے گا تو لوگ اٹھ اٹھ کر جانے لگیں گے) میں نے کہا کہ ہرگز نہیں! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے جو چیز میں جانتا ہوں تم اس سے بہتر چیز لا ہی نہیں سکتے" میں نے یہ بات تین مرتبہ اس سے کہی۔ پھر (مروان کے اس فعل کی وجہ سے ) ابوسعید (عید گاہ سے ) چلے گئے (اور جماعت میں شریک نہیں ہوئے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
صدقہ و خیرات یعنی اللہ کے نام پر اپنا مال خرچ کرنے کی جو اہمیت و فضیلت ہے اس کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں لفظ تصدقوا تین مرتبہ تاکیدا فرمایا کرتے ہیں، یا یہ کہ تین مرتبہ فرمانا تین حالتوں کی طرف اشارہ ہے (١) صدقہ دو اپنی زندگی کے واسطہ (٢) صدقہ دو اپنی موت کے لئے (٣) اور صدقہ دو اپنی آخرت کے لیے۔
" مخاضر" دو آدمیوں کے اس طرح باہم ہاتھ پکڑے ہوئے چلنے کو فرماتے ہیں کہ ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کو لھے کے قریب ہو۔
مروان ابن حکم ٢ھ میں پیدا ہوا تھا مگر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف زیارت حاصل نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح کثیر ابن صلت کے بارہ میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ مبارک ہی میں ہوئی تھی۔ چنانچہ اسی وجہ سے صاحب جامع الاصول نے انہیں صحابہ میں شمار کیا جب کہ بعض محققین نے انہیں تابعی کہا ہے۔ ان کا مکان عید گاہ کے قریب تھا انہوں نے ہی عیدگاہ میں منبر بنایا تھا تاکہ عیدین کا خطبہ اس پر کھڑے ہو کر پڑھا جائے جیسا کہ جمعہ کا خطبہ منبر پر کھڑے ہو کر پڑھنا مسنون ہے۔ لہٰذا ظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے مروان ابن حکم نے عید گاہ میں منبر بنوایا ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ ثم انصرف کے یہ معنی بھی محتمل ہو سکتے ہیں کہ مروان منبر کی طرف آیا تاکہ خطبہ پڑھے اور اس نے حضرت ابوسعید کی یہ بات نہ مانی کہ پہلے نماز پڑھی جائے پھر خطبہ پڑھا جائے۔
عیدین کی نماز کا طریقہ : عیدین کی نماز دو رکعت ہے جس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نماز پڑھنے والا نیت کر کے اور تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھے لے پھر سبحانک اللہم پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے اور ہر مرتبہ مثل تکبیر تحریمہ کے دونوں کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کے بعد لٹکا دے اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر تو قف کرے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکیں۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائے بلکہ ہاتھ باندھے لے اور اعوذبا اللہ ، بسم اللہ ، پڑھ کر سورت فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھ کر رکوع و سجدہ کر کے کھڑا ہوا۔ پھر دوسری رکعت میں پہلے سورت فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ لے اس کے بعد تین تکبیریں اس طرح کہے جس طرح پہلی رکعت میں سبحانک اللہم پڑھ کر کہی تھی۔ لیکن یہاں تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ باندھے بلکہ لٹکائے رکھے اور پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور نماز پوری کرے ۔ نماز کے بعد امام کو چاہیے کہ وہ منبر پر کھڑے ہو کر دو خطبے پڑھے۔ عید الفطر کے خطبہ میں صدقہ فطر کے احکام و مسائل بیان کرے اور عید الاضحی کے خطبہ میں قربانی اور تکبیر تشریق کے احکام بیان کرے۔
تکبیر تشریق یعنی ہر فرض نماز کے بعد فرض نماز پڑھنے والے کے ایک مرتبہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر و للہ الحمد کہنا واجب ہے۔ یہ تکبیر عرفہ یعنی ذوالحجہ کی نویں تاریخ کی فجر سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک کہنا چاہیے ۔ یہ تکبیر عورت اور مسافر پر واجب نہیں۔ ہاں اگر یہ لوگ کسی ایسے آدمی کی مقتدی ہوں جن پر تکبیر کہنا واجب ہے تو ان پر بھی تکبیر واجب ہو جائے گی۔ (علم الفقہ)

یہ حدیث شیئر کریں