مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 15

فرائض اسلام

راوی:

وعن طلحة بن عبيد الله قال : جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم من أهل نجد ثائر الرأس نسمع دوي صوته ولا نفقه ما يقول حتى دنا من رسول الله صلى الله عليه و سلم فإذا هو يسأل عن الإسلام فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " خمس صلوات في اليوم والليلة " . فقال : هل علي غيرهن ؟ فقال : " لا إلا أن تطوع . قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : وصيام شهر رمضان " . قال : هل علي غيره ؟ قال : " لا إلا أن تطوع " . قال : وذكر له رسول الله صلى الله عليه و سلم الزكاة فقال : هل علي غيرها ؟ فقال : " لا إلا أن تطوع . قال : فأدبر الرجل وهو يقول : والله لا أزيد على هذا ولا أنقص منه . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أفلح الرجل إن صدق " (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ فرماتے ہیں اہل نجد میں سے ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے ، ہم اس کی آواز گنگناہٹ تو سن رہے تھے لیکن (فاصلہ پر ہونے کی وجہ سے) یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب پہنچ گیا تو ہم نے سنا کہ وہ اسلام کے (فرائض کے) بارہ میں سوالات کر رہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے جواب میں) فرمایا " رات دن میں پانچ نمازیں (فرض) ہیں" ۔ (یہ سن کر) اس آدمی نے کہا " کیا ان نمازوں کے سوا مجھ پر کچھ اور نمازیں بھی فرض ہیں" آپ نے فرمایا نہیں ! مگر نفل نمازیں تمہیں پڑھنے کا اختیار ہے" پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اور ماہ رمضان کے روزے (فرض) ہیں" ۔ اس آدمی نے کہا " کیا ان روزوں کے سوا کچھ اور روزے بھی مجھ پر فرض ہیں" آپ نے فرمایا " نہیں! مگر نفل روزے رکھنے کا تمہیں اختیار ہے" راوی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد زکوۃ کا ذکر فرمایا: اس نے عرض کیا، " اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی صدقہ فرض ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہیں ! مگر نفل صدقے کا تمہیں اختیار ہے" اس کے بعد وہ آدمی یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ اللہ کی قسم! میں نہ تو اس پر کچھ زیادتی کروں گا اور نہ اس سے کچھ کمی کروں گا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ " اگر اس آدمی نے سچ کہا ہے تو نجات پا گیا ہے اور کامیاب ہوگیا " ۔ (صحیح البخاری ، مسلم)

تشریح
جیسا کہ پہلے ایک حدیث کے فائدہ میں گزرا ، یہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ جس وقت اس آدمی نے سوال کیا تھا اس وقت تک اتنے ہی فرائض مشروع ہوئے ہوں گے اسی طرح نماز وتر عیدین وغیرہ بھی واجب نہ ہوئی ہوں گی اسی واسطے اس آدمی نے اس میں زیادتی اور کمی نہ کرنے کا وعدہ کیا یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آدمی کسی قوم کا نمائندہ اور ایلچی بن کر اسلام کی حقیقت اور فرائض جاننے آیا تھا تاکہ واپس جا کر اپنی قوم کو بھی اسلامی تعلیمات اور فرائض سے آگاہ کرے اسی لئے اس نے واپسی کے وقت کہا کہ نہ تو میں اس میں زیادتی کروں گا اور نہ کمی کروں گا ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے یا جو احکام و فرمان بتلائے ہیں وہ اسی طرح اپنی قوم تک پہنچادوں گا، ان میں نہ تو اپنی طرف سے کوئی زیادتی کروں گا اور نہ کوئی کمی۔

یہ حدیث شیئر کریں