کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
راوی:
وَعَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیْکَربَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ((اِلَا اِنِّیْ اُوْتِیْتُ الْقُرْاٰنَ وَمِثْلَہ، مَعَہ، اَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانَ عَلٰی اَرِیْکَتِہٖ یَقُوْل: عَلَیْکُمْ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ' فَمَاوَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالَ فَاَحِلُّوْہُ وَمَاوَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامِ فَحَرِّمُوْہُ' وَاِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کَمَا حَرَّمَ اﷲُ أَلاَ لاَ یَحِلًّ لَکُمُ الْحِمَارُ الْاَھْلِیُّ وَلَا کُلُّ ذِیْ نَاْبِ مِنَ السِّبَاعِ وَلَا لُقْطَۃُ مُعَاھِدِ اِلا اَنْ یَّسْتَغْنِیَ عَنْھَا صَاحِبُھَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمِ فَعَلَیْھِمْ اَنْ یَّْقُرْوُہ فَاِنْ لَّمْ یَقْرُوْہُ فَلَہ،ۤ اَنْ یُعْقِبَھُمْ بِمِثْلِ قِرَاہُ)) رَوَاہُ اَبُوْدَا دَوَرَوَی الدَّرِامِیُّ نَحْوَہ، وَکَذَا ابْنُ مَاجَۃَ اِلٰی قَوْلِہٖ ((کَمَا حَرَّمَ اﷲُ))
" اور حضرت مقدام بن معدیکرب رضی الله تعالیٰ عنه(اسم گرامی مقدام بن معدیکرب اور کنیت بھی معدیکرب ہے، آپ صحابی ہیں شام میں ٨٧ھ میں بعمر ٩١ سال آپ کا انتقال ہوا ہے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگاہ رہو ! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کا مثل، خبردار، عنقریب اپنے چھپر کھٹ پر پڑا ایک پیٹ بھرا آدمی کہے گا کہ بس اس قرآن کو اپنے اوپر لازم جانو (یعنی فقط قرآن ہی کو سمجھو اور اس پر عمل کرو) اور جو چیز تم قرآن میں حلال پاؤ اس کو حلال جانو اور جس چیز کو تم قرآن میں حرام پاؤ اسے حرام جانو حالانکہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام فرمایا ہے وہ اس کے مانند ہے جسے اللہ نے حرام کیا، خبردار تمہارے لئے نہ اہلی (گھریلو) گدھا حلال کیا اور نہ کچلی رکھنے والے درندے، اور نہ تمہارے لئے معاہد یعنی وہ قوم جس سے معاہدہ کیا گیا ہو کا لقطه حلال کیا ہے جس کی پرواہ اس کے مالک کو نہ ہو، اور جو شخص کسی قوم کا مہمان ہو اس قوم پر لازم ہے کہ اس کی مہمانی کریں۔ اگر وہ مہمانی نہ کریں تو اس آدمی کے لئے جائز ہے کہ وہ مہمانی کے مانند اس سے حاصل کرے۔ (ابوداؤد) دارمی نے بھی ایسی روایت نقل کی ہے اور اسی طرح حدیث بھی مجھے بارگاہ الوہیت سے عطا ہوئی ہے۔"
تشریح :
" قرآن کا مثل" حدیث ہے یعنی جس طرح قرآن مجید مجھ پر نازل کیا گیا ہے اسی طرح حدیث بھی مجھے بارگاہ الوہیت ہی سے عطا ہوئی ہے لیکن فرق یہی ہے کہ قرآن وحی ظاہر ہے اور حدیث وحی پوشیدہ۔ لہٰذا واجب العمل دونوں میں الا لا یحل سے بطور مثال کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان چیزوں کی حرمت قرآن میں کہیں مذکور نہیں ہے میں نے ہی ان کی حرمت بیان کی ہے جس پر عمل کرنا واجب و ضروری ہے۔
اہلی گدھا اسے کهتے ہیں جو گھر میں رہتا ہے یہ حرام ہے گدھا وحشی جسے گورخر کهتے ہیں ۔ ان سب کی حرمت احادیث ہی سے ثابت ہے معاہد اس کافر کو کهتے ہیں جس کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ صلح و امان ہوا ہو، خواہ وہ کافر ہو یا غیر ذمی، اس کے بارہ میں فرمایا کہ اس کا لقطہ حلال نہیں ہے، ہاں اگر لقطہ ایسی چیز ہے جس سے اس کا مالک بے نیاز و بے پرواہ ہو جیسے گٹھلی، چھلکے، گا جر، مولیٰ یا ایسی ہی کوئی حقیر چیز تو اس کے لئے لینا جائز ہے لقطہ اس چیز کو کهتے ہیں جو راستہ میں گری پڑی پائی جائے۔
آخر میں فرمایا گیا ہے کہ جو آدمی کسی کے یہاں مہمان جائے تو میزبان پر اس کی مہمانداری لازم ہے علماء فرماتے ہیں کہ یہ حکم فرض نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا مستحب و اولی ہے، اسی طرح یہ حکم دینا کہ اگر میزبان مہمان نوازی نہ کر سکے تو میزبان کے لئے جائز ہے کہ وہ اس میزبان سے مہمانداری کا عوض وصول کر لے یعنی اس سے روپیہ پیسہ لے ۔
اس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ یا تو ایسی شکل میں جائز ہوا جب کہ مہمان ایسا مضطر ولا چار ہو کہ اگر میزبان سے وہ کچھ نہ لے تو اس کے ہلاک ہو جانے کا خطرہ ہو۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ جواز کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا لیکن اب منسوخ ہے۔
