مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان ۔ حدیث 176

کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَنَسِ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَقُوْلُ لَا تُشَدِّدُوْا عَلَی اَنْفُسِکُمْ فَیُشَدِّدُ اﷲُ عَلَیْکُمْ فَاِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ فَشَدَّدَ اﷲُ عَلَیْھِمِ فَتِلْکَ بَقَایَاھُمْ فِی الصَّوَامِعِ وَالدِّیَارِ((رَھْبَانِیَّۃَ ابْتَدَعَوْھَا مَاکَتَبْنَا ھَا عَلَیْھِمْ))(رواہ ابوداؤد)

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے، تم اپنے نفس پر سختی نہ کرو اس لئے کہ پھر اللہ بھی تم پر سختی کرے گا، ایک قوم (یعنی بنی اسرائیل) نے اپنے نفس پر سختی کی تھی چنانچہ اللہ نے بھی اس پر سختی کی۔ پس آج جو لوگ صومعوں اور دیار میں پائے جاتے ہیں یہ انہیں لوگوں نے پیدا کیا ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی۔" (ابوداؤد)

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ اپنی جانوں کو خواہ مخواہ زیادہ محنت و مشقت میں مبتلا نہ کرو یعنی ریاضت و مجاہدہ میں ایسے طریقے اختیار نہ کرو جن کو تمہارے قوی برداشت کرنے کے اہل نہ ہوں اور نہ تمہارا نفس اتنی محنت و مشقت برداشت کر سکتا ہو اور اسی طرح ایسی چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لئے مباح قرار دی ہیں اس لئے کہ اگر تم اپنی طرف سے اپنی جانوں پر سختی کرو گے اور زیادہ محنت و مشقت میں پڑو گے تو اللہ انہیں چیزوں کو تمہارے اوپر فرض کرے گا لیکن تمہارے اندر اتنی طاقت نہیں ہوگی کہ تم ان کے حقوق ادا کر سکو، نتیجہ میں آخرت کی تباہی و ہلاکت اپنے ذمہ لے لوگے۔
صومہ اس جگہ کو فرماتے ہیں جہاں عیسائی عبادت کیا کرتے ہیں جسے گرجا کہا جاتا ہے اور دیار یہود کے عبادت کرنے کو جگہ کو کہتے ہیں اسی طرح رہبانیت اسے کہتے ہیں کہ عبادت و ریاضت بہت زیادہ کی جائے اپنے نفس کو مشقّتوں اور تکلیفوں میں ڈالا جائے دنیا سے بالکل بے تعلق ہو جائے تمام لوگوں سے اپنے کو منقطع کر لے ٹاٹ کے پیراہن استعمال کرے، گردن میں زنجیر باندھ لے قوت مردانگی کو ختم کرنے کے لئے نفسانی خواہشات کو مار ڈالنے کے لئے بالکل غیر فطری طور پر جنسی محرکات کو منقطع کر ڈالے اور دنیاوی زندگی کو یکسر چھوڑ کر جنگل و پہاڑ پر جا کر بسیرا ڈال لے، جیسا کہ رہبانیت اہل کتاب نے اپنے اوپر ضروری کر رکھی تھی اور ان کے عابد و زاہد لوگ ایسا کیا کرتے تھے لیکن چونکہ رہبانیت اسلام کے فطری اصولوں سے بالکل جدا اور الگ ہے اس لئے شریعت نے کبھی اس کا جائز قرار نہیں دیا۔
لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رہبانیت اسلام میں ناجائز قرار دی ہے اور فرمایا ہے الحدیث (لارھبانیۃ فی الاسلام) یعنی اسلام میں رہبانیت جائز نہیں ہے، بلکہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رہبانیت کسی بھی آسمانی دین میں ضروری نہیں تھی بلکہ خود اس دین کے ماننے والے رہبانیت کو اپنی دینی و دنیاوی فلاح و کامیابی کا ذریعہ سمجھتے تھے، چنانچہ یہود و نصارٰی میں بھی لوگوں نے خود ہی ان چیزوں کا اختراع کیا تھا اور ایسی مشقیتں و تکلیفیں اپنے اوپر لازم کرلی تھیں جو شریعت کی جانب سے ان پر فرض نہ کی گئی تھیں لیکن یہ قومیں چونکہ فطرتًا غیر مستقل مزاج، خواہشات نفسانی کی پابند اور آزاد طبع واقع ہوئی ہیں اس لئے وہ اپنے اوپر خود فرض کی ہوئی چیزوں کو بھی پورا نہ کر سکیں ان کے ذہن و قوی نہ ان کے حقوق ادا کر سکے اور نہ وہ ان پر مستقل مزاجی سے قائم رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنے دین سے بھی ہاتھ دھونا پڑا چنانچہ اکثر نہ ان کے حقوق ادا کر سکے اور نہ وہ ان پر مستقل مزاجی سے قائم رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنے دین سے بھی ہاتھ دھونا پڑا چنانچہ اکثر عیسائی اپنے دین سے منحرف ہوگئے اور انہوں نے یہودی مذہب قبول کر لیا بہت سے یہودی رہبانیت کو چھوڑ چھاڑ کر نصرانیت کی طرف مائل ہوگئے کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے دین پر قائم رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔
بہر حال آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اسی طرح تم رہبانیت کو اختیار نہ کرو اور نہ غیر شرعی فطری مشقتوں میں اپنی جانوں کو مبتلا کرو بلکہ شریعت نے جو حدود متعین کر دی ہیں انہیں کے اندر اپنی زندگی کزارو اور خداوند کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرائض بتائے ہیں وہی ادا کرتے رہو۔

یہ حدیث شیئر کریں