مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 19

انسان کو سر کشی زیب نہیں رہتی

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلمقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰیکَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِےْبُہُ اِےَّایَ فَقَوْلُہُ لَنْ ےُّعِےْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَےْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِےَّایَ فَقََوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ ےَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رَوَاےَۃٍ: ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہُ اِےَّایَ فَقَوْلُہُ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا۔(صحیح البخاری)

" اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم (انسان مجھ کو جھٹلاتا ہے اور یہ بات اس کے شایان نہیں اور میرے بارے میں بد گوئی کرتا ہے حالانکہ یہ اس کے مناسب نہیں ہے، اس کا مجھ کو جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اللہ نے مجھ کو (اس دنیا میں) پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اسی طرح وہ (آخرت میں) مجھ کو دوبارہ ہرگز پیدا نہیں کر سکتا حالانکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ پیدا کرنے کے مقابلہ میں مشکل نہیں ہے ۔ اور اس کا میرے بارے میں بد گوئی کرنا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے ، اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میں تنہا اور بے نیاز ہوں ، نہ میں نے کسی کو جنا ہے اور نہ مجھ کو کسی نے جنا اور نہ کوئی میرا برابری کرنے والا ہے اور عبداللہ ابن عباس کی روایت میں اس طرح ہے " اور اس (انسان) کا مجھے برا بھلا کہنا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ کا بیٹا ہے حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ کسی کو بیوی یا بیٹا بناؤں۔" (صحیح البخاری)

تشریح
جو لوگ یہ فرماتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک مرتبہ پیدا ہو کر مر جانے والوں اور اس دنیا سے اپنا وجود ختم کر دینے والوں کو دوبارہ حیات ملے اور نئی دنیا (آخرت) کے لئے ان کا وجود پھر عمل میں آئے یا اسی طرح جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے " بیٹا " ثابت کرتے ہیں اور اس کا عقیدہ رکھتے ہیں جیسے عیسائیوں کا کہنا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں، یا یہودیوں کا کہنا کہ عزیر علیہ السلام اللہ کی اولاد ہیں، درحقیقت فکر و عقیدہ کی بے راہ روی ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنا اور اس کی ذات پر بہتان باندھنا ہے ۔ جھوٹ کی نسبت تو اس اعتبار سے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سچی کتابوں اور اپنے سچے پیغمبروں کے ذریعہ قیامت کی واضح خبر دی ہے اور بتایا ہے کہ ہر ذی روح کو مرنا ہے اور پھر آخرت میں دوبارہ زندہ ہو کر ایک نئی حیات پانا ہے جو ابدی ہوگی، اب اگر کوئی آدمی قیامت کا انکار کرتا ہے یا حیات بعد الموت کو ناممکن سمجھتا ہے تو دراصل وہ ظاہر کرتا ہے کہ (نعوذ با اللہ ) اللہ جھوٹا ہے جس نے ان غلط باتوں کی ہمیں خبر دی ہے اسی طرح یہ تصور قائم کرنا اور کہنا کہ جو شحص ایک مرتبہ پیدا ہو کر ختم ہو چکا ہے وہ دوبارہ وجود نہیں پاسکتا، درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی صفت قادریت و خالقیت کا انکار کرنا ہے۔ ان نادانوں کی عقل میں یہ موٹی بات نہیں آتی کہ جو خالق کسی چیز کو عدم سے نکال کر وجود کا لباس پہنا سکتا ہے وہ اسی چیز کو جبکہ وہ ٹوٹ پھوٹ کر اپنا قلب کھو چکی ہو، دوبارہ قالب اور وجود عطا کیوں نہیں کر سکتا، محدود قدرت رکھنے والا انسان بھی کسی چیز کی تخلیق میں اگر کوئی دقت اور مشکل محسوس کرتا ہے تو پہلی مرتبہ کی تخلیق میں محسوس کرتا ہے جب کہ اسی چیز کو دوبارہ بنانا اس کے لئے زیادہ مشکل نہیں ہوتا، پھر لا محدود طاقت قدرت رکھنے والے خلاق عالم کو اپنی کسی تخلیق کو دوبارہ وجود دینے میں بھلا کیا دقت ہو سکتی ہے۔ واضح ہو کہ " پہلی مرتبہ" اور " دوسری مرتبہ" کی یہ تفصیل انسان کے اعتبار سے اور محض سمجھانے کے لئے ہے اس کا تعلق حق تعالیٰ کی ذات سے ہرگز نہیں ہے وہ تو قادر مطلق ہے، کسی چیز کو پیدا کرنا نہ اس کے لئے پہلی مرتبہ مشکل ہے اور نہ دوسری مرتبہ۔
اللہ کے بارے میں بد گوئی کے ذریعہ اس کی ذات پر بہتان باندھنا اس اعتبار سے ہے کہ جب اس نے واضح طور پر بتایا ہے کہ وہ تنہا، بے نیاز اور بے کفو ہے اور یہ کہ نہ اس کو کسی نے جنا اور نہ اس نے کسی کو جنا ہے تو پھر کسی کو اس کا بیٹا بنانا اس کو کسی کا باپ بتانا اس کی ذات پر بہتان تراشی نہیں تو اور کیا ہے؟، یہ انسان کی ذہنی پستی اور فکر و خیال کی گراوٹ کی بات ہے کہ وہ اپنے خالق اور اپنے پروردگار کی طرف ایسی چیزوں کی نسبت کرے جس سے اس کی ذات پاک ہے، بے نیاز ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں