مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 199

علم اور اس کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنْہ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ نَّفَّسَ عَنْ مُّؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ الدُّنْےَا نَفَّسَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ ےَوْمِ الْقِےٰمَۃِ وَمَنْ ےَّسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ ےَسَّرَ اللّٰہُ عَلَےْہِ فِی الدُّنْےَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْےَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ اَخِےْہِ وَمَنْ سَلَکَ طَرِےْقًا ےَّلْتَمِسُ فِےْہِ عِلْمًا سَھَّلَ اللّٰہُ لَہُ بِہٖ طَرِےْقًا اِلَی الْجَنَّۃِ وَ مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَےْتٍ مِّنْ بُےُوْتِ اللّٰہِ ےَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَےَتَدَارَسُوْنَہُ بَےْنَھُمْ اِلَّا نَزَلَتْ عَلَےْھِمُ السَّکِےْنَۃُ وَغَشِےَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلٰئِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِےْمَنْ عِنْدَہُ وَمَنْ بَطَّأَ بِہٖ عَمَلُہُ لَمْ ےُسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہُ ۔ (مسلم)

" اور حضر ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جو آدمی دنیا کی سختیوں میں سے کسی مسلمان کی کوئی سختی اور تنگی دور کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن وہاں کی سختیاں اس سے دور کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندوں کی مدد کرتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی مسلمان کی مدد کرتا رہتا ہے اور جو آدمی علم کی تلاش میں کسی راستہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کے راستہ کو آسان کر دیتا ہے اور جب کوئی جماعت اللہ کے گھر (مسجد یا مدرسہ) میں قرآن پڑھتی پڑھاتی ہے تو اس پر (اللہ کی جانب سے) تسکین نازل ہوتی ہے۔ رحمت الٰہی اس کو اپنے اندر چھپا لیتی ہے اور فرشتے اس کو گھیر لیتے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ اس جماعت کا ذکر ان (فرشتوں) میں کرتا ہے جو اس کے پاس رہتے ہیں اور جس نے عمل میں تاخیر کی آخرت میں اس کا نسب کام نہیں آئے گا۔ " (صحیح مسلم)

تشریح :
اس حدیث سے اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی عظمت و برتری کا پتہ چلتا ہے ، اسلام اپنی تعلیمات کے ذریعہ پوری انسانی براداری کے درمیان محبت و مروت، انسانی ہمدردی و رواداری، امدادومعاونت اور حسن سلوک کی اعلیٰ روح پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ انسان اخلاق و محبت کی ایک کڑی میں منسلک ہو کر پورے امن و سکون اور چین و راحت کے ساتھ حقوق عبدیت ادا کر سکیں۔
چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تم قیامت کے دن کی سختی سے بچنا چاہتے ہو تو تم اپنے بھائی کی خبر گیری کرو جو دنیا کی سختی میں پھنسا ہوا ہے، اگر اس پر کوئی سخت وقت آپڑا ہے تو اس کی مدد کرو۔ اگر وہ زندگی کی کسی الجھن میں پھنسا ہوا ہے تو اسے چھٹکارادلاؤ۔ اگر وہ مصائب و تکلیف میں مبتلا ہے تو ان کو اس سے دور کرو۔ اس لئے کہ حسن سلوک کا یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر تم آخرت کی سختیوں سے نہایت آسانی کے ساتھ گزر جاؤ گے۔
اعلان کیا جا رہا ہے کہ اگر تم دین و دنیا دونوں جگہ کی آسانیاں چاہتے ہو، اگر تم اس کے متمنی ہو کہ دنیا کی کامیابی و کامرانی تمہارے قدم چومے اور آخرت کی فلاح و سعادت تمہارے حصہ میں آئے تو اپنے اس بھائی کی مدد کرو جو تنگدست ہے۔ مفلسی و متلاشی کے جال میں پھنسا ہوا ہے، بے روزگاری و تباہ حالی کی چکی میں پس رہا ہے ، مثلاً اگر وہ مقروض ہے اور اللہ نے تمہیں وسعت دی ہے تو اس کا قرض ادا کردو۔ اگر کوئی خود تمہارا مقروض ہے اور تم جانتے ہو کہ وہ قرض ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو تم اس کا قرض معاف کر دو، اگر کوئی انتہائی تباہ حال و پریشان ہے تو اس کی مدد کر کے تنگدستی سے اسے چھٹکار دلاؤ۔ اگر کوئی اپنی ناداری و مفلسی کی بناء پر اپنی کسی سخت ضرورت کو پورا نہیں کر سکتا تو تم اس کی اس ضرورت کو پورا کردو اور پھر دیکھو اللہ کی رحمت کسی طرح بڑھ کر تمہیں اپنے دامن میں چھپاتی ہے ۔ دنیا کی عزت و عظمت تمہارے قدموں میں کھیلتی نظر آئے گی اور زندگی کی ہر آسانی تمہارے لئے مہیا ہوگی اور نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی اللہ کی رحمت تمہارے ساتھ ہوگی، وہاں کی ہر سختی اور ہر آزمائش میں تمہارا ہی حسن سلوک مددگار و معاون ہوگا اور تم وہاں کے ہر امتحان میں کامیاب رہو گے۔ اسی طرح فرمایا گیا ہے کہ اگر تم دنیا و آخرت میں اپنے عیوب کی پردہ پوشی چاہتے ہو تو تم دنیا میں اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرو۔ یعنی کسی کے عیب کو لوگوں کے سامنے بیان کر کے اسے رسوا اور ذلیل نہ کرو۔ اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے تو اسے لوگوں کے سامنے ظاہر کر کے اور برسر عام اچھال کے اسے شرمندہ نہ کرو کیونکہ یہ اللہ کا معاملہ ہے وہ اگر چاہے گا تو اسے دنیا ہی میں یا آخرت میں سزا دے دے گا ورنہ اپنی رحمت سے اسے معاف کر دے گا۔
یا پردہ پوشی کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی ناداری و مفلسی کی بنا پر لباس کی نعمت سے محروم ہے اور اتنا تنگدست و غریب ہے کہ اپنے ستر کو بھی نہیں چھپا سکتا تو چاہئے کہ اپنے اس نادار بھائی کی ستر پوشی کرے اس لئے کہ جو اپنے بھائی کی ستر پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا میں اور قیامت میں اس کے عیوب اور گناہوں کی پردہ پوشی فرمائے گا اور آخر میں عمومی طور پر یہ کلیہ بتا دیا گیا ہے کہ جب تک کوئی بندہ اپنے کسی بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اور اللہ کی مخلوق کی خبر گیری میں مصروف رہتا ہے تو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت رہتی ہے۔
حدیث میں طلب علم اور طالب علم کی فضیلت بھی ظاہر فرمائی جا رہی ہے، چنانچہ ارشاد ہے ہو رہا ہے کہ جو آدمی علم دین کے حصول کے لئے اپنے وطن و شہر کو چھوڑ کر عزیز و اقا رب سے جدا ہو کر اور عیش و آرام پر لات مار کر حصول علم کے جذبہ سے باہر نکلتا ہے اور تلاش علم کے لئے راہ مسافرت پر گامزن ہوتا ہے تو رب قدوس اس کی ریاضت و مشقت اور جان کاہی و پریشانی کی وجہ سے اس پر بہشت کی راہ آسان کر دیتا ہے یعنی طالب علم کی کوششوں کے صلہ میں اسے جنت میں داخل کیا جائے گا یا یہ کہ اسے خداوند کیجانب سے اس عظیم سعادت کی توفیق ہوگی کہ اس نے جس علم کی تلاش میں اتنی مصیبتوں اور پریشانیوں کو برادشت کیا اس پر وہ نیک عمل بھی کرے جو جنت میں داخل ہونے کا سبب اور باعث ہے۔
اسی طرح جو لوگ مساجد و مدارس میں حصول علم میں منہمکم ہوتے ہیں اور قرآن کے علوم و معارف سے استفادہ کرنے اور دوسروں کو پڑھانے میں مشغول ہوتے ہیں ان پر اللہ کی جانب سے بے پایاں رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور ان پر اللہ کی جانب سے تسکین کا نزول ہوتا ہے یعنی طلب علم کے سلسلہ میں ان کے اندر خاطر جمعی اور دل بستگی ودیعت فرمائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کے قلوب دنیا کے عیش و عشرت، راحت وآرام اور غیر اللہ کے خوف و ڈر سے پاک صاف ہو کر ہر وقت اللہ کی طرف لو لگائے رہتے ہیں اور ان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل نور الہٰی کی مقدس روشنی سے جگمگا اٹھتے ہیں نیز فرشتے ان کی عزت و توقیر کرتے ہیں اور فرط عقیدت سے ان لوگوں کو گھیرے رہتے ہیں اور پھر رب قدوس اس مقدس جماعت کا تذکرہ جو درس و تدریس میں مشغول ہوتی ہے اپنے ان فرشتوں کے درمیان کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں یہ اس جماعت کی انتہائی عظمت و فضیلت کی دلیل ہے۔
آخر حدیث میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ آخرت کی کامیابی و کامرانی اور فلاح و سعادت کا درا و مدار عمل پر ہے۔ اگر دنیا میں عمل خیر میں کوتاہی نہیں تو آخرت میں عزت و عظمت کا حقدار ہوگا اور دنیا میں کسی نے عمل میں کوتاہی کی اگرچہ وہ دنیا میں کتنا ہی با اقبال و با عظمت کیوں نہ رہا ہو اور کتنا ہی بڑا حسب و نسب والا کیوں نہ ہو آخرت میں اس سے باز پرس ہوگی اور وہاں دنیا کی عالی نسبی اور وجاہیت کچھ کام نہیں دے گی
بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی
کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
(یعنی اے جامی) جب تم اسیر عشق ہوگئے تو حسب و نسب کے چکر میں نہ پڑو کیونکہ اس راہ میں فلاں ابن فلاں کوئی چیز نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں