مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 206

علم اور اس کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا اِلَّا کَانَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ الْاَوَّلِ کِفْلٌ مِّنْ دَمِھَا لِاَنَّہُ اَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ)
صحیح البخاری و صحیح مسلم وسنذ کر حدیث معادیۃ لایزال طائفۃ من امتی فی باب ثواب حذہ الامۃ ان شاء اﷲ تعالی۔

" اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جو آدمی ظلم کے طریقہ پر قتل کیا جاتا ہے تو اس کے خون کا ایک حصہ آدم کے پہلے بیٹے قابیل پر ہوتا ہے اس لئے کہ وہ پہلا آدمی ہے جس نے قتل کا طریقہ نکالا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) اور معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ حدیث جس کی ابتداء یہ ہے " لا یزال امتی " ہم انشاء اللہ " باب ثواب حذہ الامۃ" میں بیان کریں گے۔"

تشریح :
انسانی ظلم و ستم کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے قابیل کی زندگی سے شروع ہوتی ہے جس نے اپنی ایک انتہائی معمولی نفسانی خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے حقیقی بھائی ہابیل کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور انسانی تاریخ کا یہ سب سے پہلا خونی واقعہ تھا جس نے ناحق خون بہانے کی بنیاد ڈالی۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ جب کوئی نیک طریقہ رائج کرتا ہے تو اسے اس نیک کام کا ثواب بھی ملتا ہے، اسی طرح برا طریقہ رائج کرنے والے کو خود اس عمل کا اور اس طریقہ پر عمل کرنے والے کا بھی گناہ ملتا ہے۔
اسی لئے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ جب بھی کوئی آدمی ظلم کے طریقہ پر قتل کر دیا جاتا ہے تو اس کے خون کا ایک حصہ قابیل پر بھی ہوتا ہے اس لئے کہ ناحق خون بہانے اور ظلم و ستم کے ساتھ قتل کا اول موجد وہی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں