مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 228

علم اور اس کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرِو قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اَلْعِلْمُ ثَلَاثَۃٌ اٰیَۃٌ مُحْکَمَۃٌ اَوْسُنَّۃٌ قَائِمَۃٌ اَوْ فَرِیْضَۃٌ عَادِلَۃٌ وَمَا کَانَ سِویَ ذٰلِکَ فَھُوَ فَضْلٌ۔ (رواہ ابوداؤد وابن ماجۃ)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ علم تین ہیں (١) آیت محکم (یعنی مضبوط)۔ (٢) سنت قائمہ (٣) فریضہ عادلہ۔ اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ زائد ہے۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ دین کے علم تین ہیں، یا یہ کہ علم دین کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔ " آیت محکم" وہ آیتیں ہیں جو مضبوط اور غیر منسوخ ہیں، اس سے کتاب اللہ کی طرف اشارہ ہے جو کہ اصل قرآن آیات محکمات ہی ہیں اس لئے یہاں صرف انہیں کو ذکر کیا گیا ہے اور وہ دوسرے علوم جو اس کے لئے وسیلہ ہیں وہ بھی اس کے ساتھ متعلق ہیں۔ " سنت قائمہ" یعنی وہ حدیث جو متن اور اسناد کی مخالفت کے ساتھ ثابت ہیں۔
" فریضۃ عادلہ" سے اشارہ ہے قیاس اور اجماع کی طرف جو کتاب و سنت سے مستنبط ہوتا ہے ۔ اس کو فریضہ اس لئے کہا گیا ہے قیاس و اجماع پر بھی عمل کرنا اسی طرح واجب ہے جس طرح کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چنانچہ " عادلہ" کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسا فریضہ جو کتاب و سنت کے مثل اور عدیل ہے۔
بہر حال حدیث کی توضیح یہ ہوئی کہ دین کے اصول چار ہیں جس پر دین و شریعت کی پوری بنیاد ہے۔ (١) کتاب یعنی قرآن مجید (٢) سنت یعنی احادیث (٣) اجماع (٤) قیاس اور اس کے علاوہ جو بھی علم ہوگا وہ زائد اور دینی حیثیت سے بے معنی ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں