مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 24

خاتمہ بالا یمان جنت کی ضمانت ہے

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ص قَالَ اَتَےْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَعَلَےْہِ ثَوْبٌ اَبْےَضُ وَھُوَ نَآئِمٌ ثُمَّ اَتَےْتُہُ وَقَدِ اسْتَےْقَظَ فَقَالَ مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ عَلٰی ذٰلِکَ اِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ قُلْتُ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قَالَ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قَالَ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قَالَ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ عَلٰی رَغْمِ اَنْفِ اَبِی ذَرٍّ وَّکَانَ اَبُوْ ذَرٍّ اِذَا حَدَّثَ بِھٰذَا قَالَ وَاِنْ رَغِمَ اَنْفُ اَبِیْ ذَرٍّ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت ابوذر غفاری (اصل نام جندب بن جنادہ ہے اور بوذر غفار کی کنیت سے مشہور ہیں، آپ مکہ میں بالکل ابتداء اسلام میں ایمان سے بہرہ ور ہوگئے تھے۔ آپ کا انتقال ٣٢ ھ میں ہوا ہے۔) فرماتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے (اس وقت تو میں واپس چلا آیا) پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو چکے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ کو دیکھ کر ) فرمایا جس آدمی نے صدق دل سے لا الہ الا اللہ (یعنی اللہ کی وحدانیت کا سچے دل سے اعتراف و اقرار کیا ) اور اسی عقیدہ پر اس کا انتقال ہو گیا تو وہ ضرور جنت میں داخل کیا جائے گا " میں نے عرض کیا " اگرچہ اس نے چوری اور زنا (جیسے بڑے گناہوں ) کا ارتکاب کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، خواہ وہ چوری اور زنا کے جرم کا مرتکب کیوں نہ ہو۔ میں نے پھر (تعجب سے ) سوال کیا، اگرچہ اس نے چوری اور زنا کا ارتکاب ہی کیوں نہ کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں خواہ وہ چوری اور زنا کے جرم کا مرتکب کیوں نہ ہو؟ میں نے ( پھر تیسری بار بہت حیرت سے ) عرض کیا، اگرچہ اس نے چوری اور زنا کے جرم کا ارتکاب کیا ہو؟ (تیسری مرتبہ بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا " ہاں خواہ وہ چوری اور زنا کا مرتکب ہی کیوں نہ ہوا ہو اور خواہ ابوذر کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ (راوی فرماتے ہیں کہ) جب بھی حضرت ابوذر یہ حدیث بیان کرتے (بطور فخر) اس آخری فقرہ " خواہ ابوذر کو کتنا ہی ناگوار گزرے" ضرور نقل کرتے تھے ۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے اور اس کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اس کے فضل و کرم سے کوئی بعید نہیں کہ وہ اس آدمی کو جنت میں داخل کر دے جو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا تھا مگر مرتے وقت اس کا دل ایمان و یقین کی روشنی سے منور تھا، تاہم محدثین اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ اس کی بخشش و مغفرت اس کے ایمان کی بنا پر تو ہر حال میں ہوگی یعنی اس کو ابدی نجات سے سرفراز کیا جائے گا مگر دنیا میں اس نے جو گناہ کئے ہوں گے اور جن بداعمالیوں کا مرتکب ہوا ہوگا پہلے ان کی سزا اس کو بھگتنی ہوگی۔ چنانچہ ابوذر غفاری کو اسی لئے تعجب ہو رہا تھا اور وہ بار بار پوچھ رہے تھے کہ کیا کوئی آدمی محض اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت پر ایمان و اقرار کے بعد جنت میں داخل کر دیا جائے گا خواہ اس نے شریعت کی اطاعت نہ کی ہو اور بڑے بڑے گناہوں کا مرتکب رہا ہو؟ مگر حقیقت میں نگاہ نبوت اللہ کی وسیع و بہت زیادہ رحمت کو دیکھ رہی تھی کہ بڑے بڑے سرکش اور بدکار انسان جنہوں نے پوری زندگی اللہ و رسول کے احکام سے سرکشی میں گزاری ، جن کی عمر کا کوئی حصہ شریعت کی اطاعت میں نہیں گزرا انہوں نے جب آخر میں ندامت و شرمندگی اور خلوص دل سے توبہ کرلی اور مرتے وقت ان کا دل ایمان و یقین کے نور سے منور ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت نے اس توبہ و انابت اور ایمان و یقین کی بدولت جس نے سچائی اور اخلاص کے ساتھ ان کے اندر کی دنیا میں لمحہ میں انقلاب برپا کر دیا تھا ان کی پوری زندگی کی سرکشی اور بدکاریوں کو معاف کر دیا اور اپنے فضل و احسان کے سایہ میں لے کر ان کو ابدی نجات سے سرفراز کر دیا۔

یہ حدیث شیئر کریں