مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 261

علم اور اس کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنْ حُذَےْفَۃَ صقَالَ ےَا مَعْشَرَ الْقُرَّآءِ اسْتَقِےْمُوْا فَقَدْ سَبَقْتُمْ سَبْقًا بَعِےْدًا وَّاِنْ اَخَذْتُمْ ےَمِےْنًا وَّشِمَالًا لَّقَدْ ضَلَلْتُمْ ضَلَالًا بَعِےْدًا۔ (صحیح البخاری)

" اور مروی ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاریوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اے قاریوں کی جماعت سیدھے رہو! اس لئے کہ تم سبقت لے گئے ہو دور کی سبقت اگر تم (سیدھے راستہ سے ہٹ کر) ادھر ادھر ہوگئے تو البتہ بڑی گمراہی میں پڑ جاؤ گے۔" ( صحیح البخاری )

تشریح :
یہ ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے خطاب ہے جو ابتداء ہی میں اسلام کی دولت سے مشرف ہوگئے تھے۔ چونکہ ان لوگوں نے شروع ہی میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔ اس لئے یہ اپنے فضل و کمال کی بناء پر ان لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں جو بعد میں مسلمان ہوئے ہوں گے اگرچہ ان کے اعمال بھی ان ہی جیسے ہوں گے لیکن بعد کے لوگ پہلے والوں کے مرتبہ و درجہ کو ان کی سبقت اسلام کی بناء پر نہیں پہنچ سکتے۔
بہر حال انہیں مقدّس حضرات کو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مخاطب فرما رہے ہیں کہ تم لوگ شریعت، طریقت اور حقیقت کی راہ پر مستقیم رہو اس لئے کہ استقامت کرامت سے بہتر ہے۔
استقامت کے معنیٰ یہ ہیں کہ اچھے عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہا جائے، نفع دینے والے علم اور صالح پر مداومت اختیار کی جائے، اخلاص خالص رکھے اور اللہ تعالیٰ کے سوا تمام چیزوں سے دھیان ہٹا کر حق تعالیٰ کے ساتھ لو لگائے رہے۔

یہ حدیث شیئر کریں