مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 282

پاکیزگی کا بیان

راوی:

وَعَنْ رَجُلِ مِنْ بَنِی سُلَیْمِ قَالَ عَدَّھُنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِی یَدِی اَوْ فِی یَدِہٖ قَالَ التَّسْبِیْحُ نِصْفُ الْمِیْزِانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ یَمْلَاہُ وَالتَّکْبِیْرُ یَمْلا مَابَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ وَالصَّوْمُ نِصْفُ الصَّبْرِ وَالطُّھُوْرُ نِصْفُ الْاِیْمَانِ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ۔

" اور قبیلہ بنی سلیم کے ایک آدمی راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے باتوں کو (جو آگے مذکور ہیں ) میری ہاتھ پر یا اپنے ہاتھ پر شمار کیا (چنانچہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ کہنا (یعنی اس کا ثواب) آدھی ترازو بھر دیتا ہے اور الحمد اللہ (سبحان اللہ کے ساتھ) کہنا (یا فقط الحمدللہ کہنا ہی پوری ترازو کو بھر دیتا ہے اس چیز کو جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے اور روزہ آدھا صبر ہے اور پاک رہنا آدھا ایمان ہے۔ " جامع ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے)

تشریح :
حدیث کو بیان کرتے وقت راوی کو شک ہو گیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں کو میرے ہاتھ پر شمار کیا ہے یا اپنے ہاتھ پر شمار کیا ہے بہر حال ان کو شمار اس طرح کیا کہ یا تو آپ نے صحابی کی انگلی پکڑی اور ان کو ہتھیلی پر بند کرے ان پانچ باتوں کو شمار کیا۔
حدیث میں روزے کو آدھا صبر فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ پورا صبر تو یہ ہے کہ نفس کو طاعت پر رو کے یعنی احکام کو بجا لائے اور گناہوں سے روکے یعنی ممنوع چیزوں کو نہ کرے اور روزہ نام ہے صرف نفس کو طاعت پر روکنے یعنی حکم الہٰی کو بجا لانے کا لہٰذا اس اعتبار سے روزہ آدھا صبر ہوا۔

یہ حدیث شیئر کریں