مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 288

وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان

راوی:

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تُقْبَلُ صَلٰوۃٌ بِغَےْرِ طُھُوْرٍ وَّلَاصَدَقَۃٌ مِّنْ غُلُوْلٍ۔(صحیح مسلم)

" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " بغیر طہارت نماز قبول نہیں کی جاتی اور مال حرام کی خیرات قبول نہیں کی جاتی۔" (صحیح مسلم)

تشریح :
حرام مال میں صدقہ خیرات کرنا چونکہ صدقہ و خیرات کی توہین و تحقیر ہے اس لئے اس کو بہت زیادہ قابل نفرت شمار کیا گیا ہے چنانچہ ہمارے علماء نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو آدمی مال حرام میں سے صدقہ و خیرات کرتا ہے اور پھر اس کی امید بھی رکھتا کہ اس سے ثواب ملے گا تو کافر ہو جاتا ہے۔
(٣) وَعَنْ عَلِیٍّ صقَالَ کُنْتُ رَجُلًا مَذَّآئً فَکُنْتُ اَسْتَحْیِیْ اَنْ اَسْأَلَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم لِمَکَانِ ابْنَتِہ فَاَمَرْتُ الْمِقْدَادَ فَسَأَلَہُ فَقَالَ ےَغْسِلُ ذَکَرَہُ وَےَتَوَضَّاُ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ" مجھے مذی بہت زیادہ آتی تھی چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میرے نکاح میں تھی اس لئے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم دریافت کرتے ہوئے شرماتا تھا (کہ آیا اس سے غسل واجب ہوتا ہے یا وضو) اس لئے میں نے (اس مسئلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے کے لئے حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مامور کیا، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا (اس طرح سے کہ ایک آدمی ایسا ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے) تو آپ نے فرمایا کہ (مذی نکلنے پر) پیشاب گاہ کو دھو ڈالے اور وضو کرے۔" (بخاری و مسلم)

تشریح :
یہ حدیث ایک اخلاقی معاملہ میں بڑی لطیف تنبیہ کر رہی ہے کہ داماد کو اپنے سسر سے شہوت کی باتوں کا ذکر کرنا، ایسی چیزوں کا تذکرہ کرنا جن کا تعلق مباشرت عورت سے ہو یا جن کا بیان اخلاق و تہذیب اور شرم و حیاء کے منافی ہو مناسب نہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں