مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 46

سب سے بڑے گناہ

راوی:

وَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَجُلٌ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَیُّ الذَّنْبِ اَکْبَرُ عِنْدَاللّٰہِ قَالَ اَنْ تَدْعُوَلِلّٰہِ نِدًّا وَّھُوَ خَلَقَکَ قَالَ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ اَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْےَۃَ اَنْ ےَّطْعَمَ مَعَکَ قَالَ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ اَنْ تُزَانِیَ حَلِےْلَۃَ جَارِکَ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی تَصْدِےْقَھَا'' وَالَّذِےْنَ لَا ےَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلَا ےَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِاْلحَقِّ وَلَا ےَزْنُوْنَ ''الاےۃ (پ١٩۔ع٤۔((صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" حضرت عبداللہ مسعود ( اسم گرامی عبداللہ بن مسعود اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے، آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی خوشخبری دی ہے آپ نے ٢٣ھ بعمر کچھ اوپر ساٹھ سال بمقام مدینہ میں انتقال فرمایا۔) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سوال کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! یہ کہ جس اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ تم کسی کو اس کا شریک ٹھہراؤ پھر اس آدمی نے پوچھا! اس کے بعد سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خیال سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی۔ پھر اس نے پوچھا، اس کے بعد سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! یہ کہ تم اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرو (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ) سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی ارشاد کی تصدیق میں یہ آیت نازل ہوئی (جس کا ترجمہ ہے) وہی بندگان خاص ہیں جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہیں ٹھہراتے ، اور جس جاندار کو قتل کرنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں (جو کوئی ایسا کرے گا وہ گناہ کے وبال میں پڑے گا)۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں چند ایسی باتوں کی نشاندہی کی گئی جو اخلاق و انسانیت کے اعتبار سے بھی نہایت پستی اور گراوٹ کی علامت ہیں اور شریعت نے بھی ان کو سب سے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے اور جن کا ارتکاب کرنے والا اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب کا مستوجب قرار پاتا ہے۔ سب سے بڑا گناہ جس بات کو بتایا گیا ہے وہ کسی کو اپنے خالق اور پروردگار کا شریک ٹھہرانا ہے اور ان تدعو اللہ ندا کی تشریح میں علماء نے لکھا ہے کہ شریک ٹھہرانے کا مطلب ذات و صفات اور عبادت میں کسی کا اللہ کا ہمسر و ہم تاب بنانا ہے مثلاً عبادت و بندگی اور اظہار عبدیت کے جو طریقے اور جو افعال صرف ذات باری تعالیٰ کی عبادت کے لئے مخصوص ہیں۔ وہ طریقے اور افعال اللہ کے سوا کسی اور کے لئے بھی اختیار کرنا یا جس طرح اللہ کو " یا اللہ " کہہ کر یاد کیا جاتا ہے، اسی طرح کسی غیر اللہ کو پکارنا اور یاد کرنا، اور یا جس طرح اللہ تعالیٰ حاجتوں کو پورا کرنے والا ہے اسی طرح کسی اور کو بھی حاجت روا مان کر یوں فریاد رسی کرنا کہ اے فلاں میری یہ حاجت پوری کر، میری مدد کردو وغیرہ وغیرہ۔
دوسرا بڑا گناہ یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی آدمی اپنی اولاد کو اس خوف سے موت کے گھاٹ اتار دے کہ وہ میرے سر کا بوجھ بنے گی، اس کو کھلانا پلانا پڑے گا، اور اس کی پرورش و تربیت کی معاشی ذمہ داریاں برداشت کرنا پڑیں گی، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ظالمانہ طریقہ رائج تھا کہ لوگ افلاس کے خوف سے اپنی اولاد کو موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔
تیسرا بڑا گناہ یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی آدمی اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے۔ یوں تو مطلقاً زنا ایک گناہ ہے اور اس پر سخت سزا مقرر ہے۔ لیکن پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے جس طرح کہ مطلقاً ناحق قتل کرنا ایک بڑا گناہ ہے ، لیکن اولاد کو قتل کر دینا نہایت ہی بڑا گناہ ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں