موزوں پر مسح کرنے کا بیان
راوی:
وَعَنِ الْمُغِےْرَۃِ ص بْنِ شُعْبَۃَ اَنَّہُ غَزَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم غَزْوَۃَ تَبُوْکَ قَالَ الْمُغِےْرَۃُ فَتَبَرَّزَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قِبَلَ الْغَائِطِ فَحَمَلْتُ مَعَہ، اِدَاوَۃً قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَمَّا رَجَعَ اَخَذْتُ اُھْرِےْقُ عَلَی ےَدَےْہِ مِنَ الْاِدَاوَۃِ فَغَسَلَ ےَدَےْہِ وَوَجْھَہُ وَعَلَےْہِ جُبَّۃٌ مِّنْ صُوْفٍ ذَھَبَ ےَحْسُرُ عَنْ ذِرَاعَےْہِ فَضَاقَ کُمُّ الْجُبَّۃِ فَاَخْرَجَ ےَدَےْہِ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّۃِ وَاَلْقَی الْجُبَّۃَ عَلٰی مَنْکِبَےْہِ وَغَسَلَ ذِرَاعَےْہِ ثُمَّ مَسَحَ بِنَاصِےَتِہٖ وَعَلَی الْعِمَامَۃِ ثُمَّ اَھْوَےْتُ لِاَنْزِعَ خُفَّےْہِ فَقَالَ دَعْھُمَا فَاِنِّی اَدْخَلْتُھُمَا طَاہِرَتَےْنِ فَمَسَحَ عَلَےْھِمَا ثُمَّ رَکِبَ وَرَکِبْتُ فَانْتَھَےْنَا اِلَی الْقَوْمِ وَقَدْ قَامُوْا اِلَی الصَّلٰوۃِ وَےُصَلِّیْ بِھِمْ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ وَّقَدْ رَکَعَ بِھِمْ رَکْعَۃً فَلَمَّا اَحَسَّ بِاالنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم ذَہَبَ ےَتَاَخَّرُ فَاَوْمٰی اِلَےْہِ فَاَدْرَکَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِحْدَی الرَّکْعَتَےْنِ مَعَہُ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَقُمْتُ مَعَہُ فَرَکَعْنَا الرَّکْعَۃَ الَّتِیْ سَبَقَتْنَا ۔(صحیح مسلم)۔
" اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ تبوک میں شرکت کی چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ (اسی دوران ایک روز) فجر سے پہلے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پاخانے کے لئے باہر تشریف لے گئے ہیں میں پانی کا لوٹا لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہو لیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (پاخانے سے) واپس تشریف لائے (اور وضو کرنے کے لئے بیٹھے) تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر پانی ڈالنا شروع کیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور منہ دھویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونی جبہ پہنے ہوئے تھے اس کی آستینیں چڑھانی چاہیں لیکن آستینیں تنگ تھیں (اس لئے چڑھ نہ سکیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جبے کے اندر سے نکال کر جبے کو کندھوں پر رکھا اور کہنیوں تک دھو کر چوتھائی سر کا اور پگڑی کا مسح کیا پھر (جب) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتارنے کا ارادہ کیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاؤں دھولیں (تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو کیونکہ میں نے (پاؤں کی) پاکی کی حالت میں انہیں پہنا تھا (یعنی وضو کرنے کے بعد پہنا تھا ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں موزوں پر مسح کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں دونوں سوار ہو کر واپس لوگوں کے پاس آئے تو (فجر کی) نماز کے لئے جماعت کھڑی ہوگئی تھی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا رہے تھے اور ایک رکعت پڑھا بھی چکے تھے جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا احساس ہوا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے (تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامت کریں) مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا ( کہ اپنی جگہ کھڑے رہو اور نماز پڑھائے جاؤ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت نماز ان کے ساتھ ہی پڑھی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت حضرت عبدا لرحمن کی اقتداء میں ادا کی ) جب انہوں نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور جو پہلی رکعت رہ گئی تھی ہم نے اسے پڑھ لیا۔" (صحیح مسلم)
تشریح
راوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا ذکر کیا ہے مگر کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو راوی کے پیش نظر اختصار تھا اس لئے انہوں نے ان دونوں چیزوں کا ذکر کرناضروری نہیں سمجھایا یہ کہ راوی اس کا ذکر کرنے کو بھول گئے ہوں گے، یا پھر اس لئے ذکر نہیں کیا کہ یہ دونوں چیزیں بھی منہ کی حد میں آجاتی ہیں اس لئے صرف منہ دھونے کا ذکر کافی سمجھا۔
پگڑی پر مسح کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھائی سر پر مسح کرنے کے بعد تمام سر پر مسح کرنے کے بجائے پگڑی پر مسح کر لیا تاکہ تمام سر پر مسح کرنے کی سنت ادا ہو جائے اس کی وضاحت باب الوضو میں بھی کی جا چکی ہے (دیکھے باب سنن الوضو کی حدیث نمبر ٨)
بہر حال اس حدیث سے پانچ چیزیں ثابت ہوتی ہیں :
(١) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے اس سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت مثلاً نماز وغیرہ کا وقت شروع ہونے سے پہلے اس عبادت کے لئے تیاری کرنا مستحب ہے۔
(٢) حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضائے وضو پر پانی ڈالا اس سے معلوم ہوا کہ اگر دوسرا آدمی وضو کرائے تو جائز ہے۔
(٣) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت اور وضو سے فارغ ہو کر تشریف لائے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب انہوں نے بتقاضائے ادب پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ رسول اللہ امامت فرمائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا اور خود بھی آخری رکعت انہیں کی اقتداء میں پڑھی اس سے معلوم ہوا کہ ایک افضل آدمی نماز میں اگر اپنے سے کم درجہ آدمی کی اقتداء کرے تو یہ جائز ہے نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کے لئے امام کا معصوم (بے گناہ) ہونا شرط نہیں ہے۔ اس سے اس فرقہ امامیہ کا رد ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے۔
(٤) حدیث کے آخری الفاظ سے یہ ثابت ہوا کہ جس آدمی کی کوئی رکعت امام کے ساتھ پڑھنے سے چھوٹ جائے تو اس کی ادائیگی کے لئے اسے اس وقت اٹھنا چاہئے جب کہ امام سلام پھیر لے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تو چھوٹی ہوئی رکعت کو ادا کرنے کے لئے امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھنا جائز ہی نہیں اور علمائے حنفیہ کے نزدیک سلام پھیرنے سے پہلے اٹھنا مکر وہ تحریمی ہے۔ مگر اس صورت میں جب کہ یہ خوف ہو کہ اگر امام کے سلام کا انتظار کیا جائے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی تو پہلے بھی اٹھنا جائز ہے مثلا فجر کی نماز میں امام ایک رکعت پہلے پڑھا چکا تھا ایک آدمی دوسری رکعت میں آکر شامل ہوا اب اسے ایک رکعت بعد میں ادا کرنی ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ اگر وہ امام کے سلام پھیرنے کا انتظار کرتا ہے تو اسے خوف ہے کہ سورج طلوع ہو جائے گا جس کے نتیجہ میں نماز فاسد ہو جائے گی لہٰذا اس کے لئے جائز یہ ہوگا کہ وہ امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھ جائے اور نماز پوری کر لے اس مسئلہ کی وضاحت فقہ کی کتابوں میں خوب اچھی طرح کی گئی ہے اس کی تفصیل وہاں دیکھی جا سکتی ہے۔
(٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت کے وقت اگر امام مو جو نہ ہو اور اس کے آنے میں دیر ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب آئے گا تو یہ مستحب ہے کہ امام کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ کوئی دوسرا آدمی نماز پڑھانی شروع کر دے اور اگر امام کے آنے کا وقت معلوم ہو تو اس صورت میں اس کا انتظار کرنا مستحب ہے اور اگر امام کا مکان قریب مسجد ہو تو اسے جماعت کا وقت ہوجانے پر مطلع کرنا مستحب ہے۔
