مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 492

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

راوی:

وَعَنْ عَلِیٍّ اَنَّہ، قَالَ لَوْ کَانَ الدِّیْنُ بِالرَّاْیِ لَکَانَ اَسْفَلُ الْخُفِّ اَوْلٰی بِالْمَسْحِ مِنْ اَعْلَاہُ وَقَدْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَمْسَحُ عَلٰی ظَاھِرِ خُفَّیْہِ۔ (رواہ ابوداود وللدارمی معناہ)

" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ " اگر دین (صرف) رائے اور عقل ہی پر موقوف ہوتا تو واقعی موزوں کے اوپر مسح کرنے سے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اور میں نے خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں کے اوپر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔" (ابوداؤد و دارمی)

تشریح
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ناپاکی اور گندگی چونکہ موزوں کے نیچے کی جانب لگ سکتی ہے اس لئے عقل یہی تقاضا کرتی ہے کہ جس طرف ناپاکی اور گندگی لگنے کا شبہ ہو اسی طرف پاکی اور ستھرائی کے لئے مسح بھی کرنا چاہئے مگر چونکہ شرع میں صراحتہ یہ آگیا ہے کہ مسح اوپر کی جانب کرنا چاہئے اس لئے اب عقل کو دخل دینے کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کے مسائل و احکام میں عقل کو دخل نہیں دینا چاہئے کیونکہ عقل کامل شریعت کے تابع ہوتی ہے اس لئے کہ اللہ کی حکمتوں اور اس کے مراد و مفہوم معلوم کرنے میں عقل مطلقاً عاجز ہوتی ہے لہٰذا عاقل کو چاہئے کہ وہ پہر نوع شریعت کا تابع و پابند بن کر رہے عقل کا تابع نہ بنے اس لئے کہ کفار اور اکثر فلاسفہ و حکماء اور اہل ہوا و ہوس اپنی عقلوں پر بھروسہ و پندار کرنے کے سبب اور عقلوں کے تابع ہونے ہی کی وجہ سے گمراہی وضلالت کے غار میں گرے ہیں۔
چونکہ اس باب کی یہ آخری حدیث ہے اس لئے مناسب ہے کہ اس کے ضمن میں مسح سے متعلق چند مسائل ذکر کئے جائیں۔
(١) اگر موزہ کسی جگہ سے پاؤں کی تین چھوٹی انگلیوں کے برابر پھٹ جائے تو اس پر مسح درست نہیں ہوتا، اس طرح اگر ایک موزہ تھوڑا تھوڑا کر کے کئی جگہ سے اتنی مقدار میں پھٹ جائے کہ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو وہ تین اگلیوں کے برابر ہو تو اس پر بھی مسح درست نہیں ہوتا اور اگر دونوں موزے تھوڑے تھوڑے اتنی مقدار میں پھٹے ہوں کہ اگر انہیں جمع کیا جائے تو وہ تین انگلیوں کے برابر ہو تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ ان پر مسح درست ہوگا۔
(٢) جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے ان سے مسح بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
(٣) حدث کے بعد موزہ اتارنے سے مسح ٹوٹ جاتا ہے۔
(٤) مسح کی مدت ختم ہو جانے کے بعد مسح ٹوٹ جاتا ہے بشرطیکہ سردی کی وجہ سے پاؤں کے ضائع ہونے کا خوف نہ ہو، یعنی اگر سردی کی شدت اور کسی بیماری کی وجہ سے یہ خوف ہو کہ موزہ اتارنے سے پاؤں ضائع ہو جائے گا تو مسح کی مدت ختم ہونے کے بعد مسح نہیں ٹوٹے گا جب تک خوف باقی رہے گا مسح بھی باقی رہے گا۔
(٥) اگر موزہ اتارنے یا مدت ختم ہونے کی وجہ سے مسح ٹوٹ جائے اور وضو باقی ہو تو ایسی شکل میں از سر نو وضو کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف پاؤں دھو کر موزہ پہن لینا کافی ہوگا۔
(٦) اگر آدھے سے زیادہ پاؤں موزے سے باہر نکل آئے تو بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے۔
(٧) اگر مقیم نے مسح کیا اور ایک رات اور ایک دن گزرنے سے پہلے مسافر ہوگیا وہ مسح کے لئے سفر کی مدت پوری کرے یعنی تین دن اور تین رات تک مسح کرتا رہے، اسی طرح اگر مسافر نے مسح کیا اور پھر وہ مقیم ہوگیا تو اسے چاہئے کہ ایک دن ایک رات کے بعد موزہ اتار دے کیونکہ اس کی مدت پوری ہوگئی ہے۔
(٨) اگر کوئی معذور مثلاً ظہر کے وقت وضو کر کے موزہ پہنے تو جس عذر کی وجہ سے وہ معذور ہے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز سے اس کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کے لئے مسح کی مدت میں موزوں پر مسح کرنا جائز ہوگا اور پھر مسح کی مدت ختم ہوجانے کے بعد مسح ٹوٹ جائے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں