مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ غسل کا بیان۔ ۔ حدیث 510

غسل مسنون کا بیان

راوی:

عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ اِنَّ اُنَا سًا مِنْ اَھْلٍ العِرَاقٍ جَاءُ وْ ا فَقَالُوْا یَا ابْنَ عَبَّاسٍ اَتَرَی الْغُسْلَ یَوْمَ الْجُمْعَۃِ وَاجِبًا قَالَ لَا وَلَکِنَّہُ اَطْھَرُ وَ خَیْرُ لِّمَنِ اغْتَسَلَ وَمَنْ لَمْ یَغْتَسِلْ فَلَیْسَ عَلَیْہِ بِوَاجِبٍ وَ سَأُخْبِرُ کُمْ کَیْفَ بَدَءَ الْغُسْلُ کَانَ النَّاسُ مَجْھُوْ دِیْنَ یَلْبَسُوْنَ الصُّوْفَ وَیَعْمَلُوْنَ عَلَے ظُھُوْرِھِمْ وَ کَانَ مَسْجِدُ ھُمْ ضَیِّقًا مُقَارِبَ اِلسَّقْفِ اَنَّمَا ھُوَ عَرِیْشٌ فَخَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فِی یَوْمٍ حَارٍوَ عَرِقَ النَّاسُ فِی ذٰلِکَ الصُّوْفِ حَتّٰی صَارَتْ مِنْھُمْ رِیَاحٌ آَذٰی بِذٰلِکَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا فَلَمَّا وَجَدَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم تِلْکَ الرِّیَاحَ قَالَ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِذَاکَانَ ھٰذَا الْیَوْمُ فَاغْتَسِلُوْا وَلْیَمَسَّ اَحَدُکُمْ اَفْضَلَ مَا یَجِدُ مِنْ دُھْنِہٖ وَطِیْبِہٖ قَالَ ابْنُ عَبَّاٍس ثُمَّ جَآءَ اﷲُ بِالخَیْرِ وَ لَبِسُوْا غَیْرَ الصُّوْفِ وَکُفُوا الْعَمَلَ وَوُسِعَ مَسْجِدُ ھُمْ وَ ذَھَبَ بَعْضُ الَّذِی کَانَ یُؤْذِی بَعْضُھُمْ بَعْضًا مِنَ الْعِرَقِ۔ (رواہ ابوداؤد)

" حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ عراق کے چند آدمی آئے اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا کہ کیا آپ کی رائے میں جمعہ کہ دن نہانا واجب ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں !مگر (جمعہ کے دن نہانا ) بہت زیادہ صفائی اور ستھرائی ہے اور جو آدمی غسل کر لے اس کے لئے بہتر ہے اور جو آدمی نہ نہائے اس پر واجب بھی نہیں ہے اور میں تم کو بتاتا ہوں کہ جمعہ کے دن غسل کی ابتداء کیوں کر ہوئی ؟ (یعنی جمعہ کے روز غسل کس وجہ سے شروع ہوا تو اصل بات یہ تھی کہ اسلام کے شروع زمانہ میں) بعض نادار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اونی لباس پہنے تھے اور پیٹھ پر (بوجھ اٹھانے کا) کام کرتے تھے، ان کی مسجد تنگ تھی جس کی چھت نیچی اور کھجور کی ٹہنیوں کی تھی۔ ایک مر تبہ جمعہ کے دن جب سخت گرمی کی وجہ سے) اونی لباس کے اندر لوگ پسینہ سے تر ہوگئے، یہاں تک کہ (پسینہ کی) بدبو پھیلی جس سے لوگ آپس میں تکلیف محسوس کرنے لگے۔ جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بدبو کا احساس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " لوگو! جب جمعہ کا دن ہو تو غسل کر لیا کرو بلکہ تم میں سے جسے تیل یا خوشبو مثلاً عطر وغیرہ میسر ہو وہ استعمال کرے ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ " اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی کی تو لوگوں نے اونی لباس چھوڑ کر (عمدہ) کپڑے استعمال کرنے شروع کر دیئے محنت و مشقت کے کام بھی چھوٹ گئے، مسجد بھی وسیع ہوگی اور پسینے کی وجہ سے جو لوگوں کو آپس میں تکلیف ہوتی تھی وہ بھی جاتی رہی۔" ( ابوداؤد)

تشریح
شروع میں جب کہ اسلام کا ابتدائی دور تھا مسلمانوں کی زندگی محنت و مشقت اور تنگی و ناداری سے بھر پور تھی، ایسے بہت کم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جو مال دار اور خوش حال تھے۔ زیادتی اور کثرت ایسے ہی لوگوں کی تھی جو دن بھر محنت و مشقت کرتے اور جنگلوں اور شہروں میں مزدوری کرتے۔ اس طرح وہ حضرات مشکلات و پریشانی کی جکڑ بندیوں میں رہ کر اپنے دین و ایمان کی آبیاری کیا کرتے تھے۔ لیکن تنگی و پریشان حالی کا یہ دور زیادہ عرصہ نہیں رہا جب اسلام کی حقیقت آفریں آواز مکہ اور مدینہ کی گھاٹیوں سے نکل کر عالم کے دوسرے حصوں میں پہنچی اور مسلمانوں کے لشکر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرنے کے لئے ان تمام سختیوں اور پریشانیوں کو زادہ راہ بناتے ہوئے قیصر و کسری جیسے والیان ملک کی حشمت وسلطنت اور شان و شوکت سے جا ٹکراے اور جس کے نتیجے میں انہوں نے دنیا کے اکثر حصوں پر اپنی فتح و نصرت کے عَلم گاڑ دئیے تو تنگی و پریشان حالی کا وہ دور خدانے فراخی و وسعت میں تبدیل کر دیا۔ اب مسلمان نادار اور پریشان حال نہ رہے بلکہ مالدار اور خوش حال ہوگئے اور محنت و مشقت کی جگہ دنیا کی جہانبائی و مسند آرائی نے لے لی۔
اس حدیث میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جمعہ کے روز غسل کے حکم کی وجہ بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کے ان دونوں ادوار کا ایک ہلکا اور لطیف خاکہ پیش فرمایا ہے کہ پہلے تو مسلمان اتنے نادار اور تنگ دست تھے کہ نہ تو ان کے پاس ڈھنگ سے پہننے کے کپڑے تھے اور نہ معیشت کی دوسری آسانیاں میسر تھیں بلکہ وہ لوگ دن بھر محنت و مزدوری کر کے سوکھا روکھا کھاتے اور اونی لباس پہنا کرتے تھے جس کہ وجہ سے جب سخت گرمی میں ان کو پسینہ آتا تو مسجد میں بیٹھے ہوئے آس پاس کے لوگوں کو پسینے کی بو سے تکلیف ہوا کرتی تھی۔ مگر جب بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان پر مال و زر کے دروازے کھول دئیے تو وہ بغیر کسی کوشش اور محنت کے مال دار اور خوش حال ہوگئے اور اللہ نے ان پر اسباب معیشت کی بے انتہا فراوانی کر دی۔
حدیث کے آخری لفط بَعْضًا مِنَ الْعِرَقِ میں لفظ من بیان کیلئے ہے لفظ بعض کا اور یہاں بعض سے مراد اکثر ہے اس طرح اس جملے کے معنی یہ ہوں گے کہ اکثر لوگوں کے پسینے جو آپس میں لوگوں کو تکلیف پہنچاتے تھے خوشحالی اور اسباب معیشت کی فراوانی کی وجہ سے ختم ہوگئے۔
بہر حال حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پسینے کی بدبو کی کثرت کی وجہ سے ابتدائے اسلام میں جمعہ کے روز غسل کرنا واجب تھا مگر جب اسباب معیشت کی فراوانی اور مسلمانوں کی خوشحالی کی وجہ سے یہ چیز کم ہوگئی تو غسل کے وجوب کا حکم منسوخ ہوگیا اور اس کی جگہ سنت کے حکم نے لے لی۔ اس طرح اب جمعہ کے روز غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں