مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان۔ ۔ حدیث 625

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےُغِےْرُ اِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ وَکَانَ ےَسْتَمِعُ الْاَذَانَ فَاِنْ سَمِعَ اَذَانًا اَمْسَکَ وَاِلَّا اَغَارَ فَسَمِعَ رَجُلًا ےَقُوْلُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَی الْفِطْرَۃِ ثُمَّ قَالَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ فَنَظَرُوْا اِلَےْہِ فَاِذَا ھُوَ رَاعِیْ مِعْزًی۔ (صحیح مسلم)

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم (جب لشکر لے کر کسی جگہ جاتے تو) فجر ہو جانے پر (دشمن کے اوپر) حملہ کیا کرتے تھے اور فجر ہوجانے پر) اذان کا انتظار کیا کرتے تھے (اس آبادی میں سے جس کا حملہ کر دیتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن پر حملہ کے لئے جا رہے تھے تو ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اللہ اکبر، اللہ اکبر کہتے ہوئے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ آدمی اسلام کے (طریقہ) پر ہے (کیونکہ اذان تو مسلمان ہی کہتا ہے) پھر اس آدمی نے کہ اشھدان لا الہ الا اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ تم شرک سے باز آجانے کی وجہ سے دوزخ سے نکل گئے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے (چاروں طرف دیکھ کر معلوم کرنا چاہا کہ اذان دینے والا کون ہے تو ) دیکھا کہ وہ توبکریاں چرانے والا ایک آدمی ہے)۔ "

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دشمنوں پر حملہ کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تو اس بات کا خیال رکھتے کہ صبح کا وقت ہو، تاکہ اس بات کا اچھی طرح پتہ چل جائے کہ جس آبادی پر حملہ کیا جائے گا اس میں مسلمان ہیں یا کافر ہی کافر رہتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (فجر ہو جانے پر) اذان کا انتظار کیا کرتے تھے چنانچہ جس آبادی پر حملہ مقصود ہوتا اس میں سے اگر اذان کی آواز آجاتی تو یہ جان کر کہ اس آبادی میں مسلمان ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حملے سے باز رہتے تھے اور اگر اذان کی آواز نہ آتی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آبادی پر حملہ کر دیتے تھے ۔ اذان کا انتظار آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے کرتے تھے کہ مبادا اس آبادی میں مسلمان ہوں اور ان جانے میں وہ اسلامی لشکر کی زد میں آجائیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان کے ہونے اور نہ ہونے کو ایمان اور کفر کی علامت سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے روایت فقیہہ میں آتا ہے کہ جو لوگ اذان کو ترک کر دیں گے تو باوجودیکہ اذان سنت ہے ایسے لوگ مستحق قتال ہوں گے کیونکہ اذان اسلامی شعار میں سے ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں