مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان۔ ۔ حدیث 633

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ اَبِی الْعَاصِ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اجَعَلْنِیْ اِمَامَ قَوْمِی قَالَ اَنْتَ اِمَامُھُمْ وَاقْتَدِ بِاَضْعَفِھِمْ وَاتَّخِذْ مُؤَذَّّنًا لَا یَأْخُذُ عَلٰی اَذَانِہٖ اَجْرًا۔ (رواہ احمد بن حنبل و ابوداؤد، والنسائی )

" اور حضرت عثمان بن ابی عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان کے امام ہو (یعنی میں نے تمہیں تمہاری قوم کا امام مقرر کر دیا مگر یہ یاد رکھو کہ نماز پڑھانے میں) تم ان میں سے بہت زیادہ ضعیف و نا تو اں کی اقتداء کرنا اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان کہنے کی مزدوری نہ لے۔" (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

تشریح
" ضعیفوں کی اقتداء کرنے" کا مطلب یہ ہے کہ امامت میں ضعیف و کمزور لوگوں کی رعایت کی جائے یعنی قرأت اتنی لمبی نہ کی جائے اور ارکان نماز اس طرح ادا نہ کئے جائین کہ لوگ تنگ و پریشان ہو جائیں اور جماعت سے نماز پڑھنا چھوڑ دیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام اور مؤذن کے لئے نماز پڑھانے اور اذان دینے کی اجرت حلال نہیں ہے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اذان اقامت اور تعلیم قرآن کے سلسلہ میں معاوضہ لینا جائز نہیں ہے۔ مگر علماء نے یہ لکھا ہے کہ اگر امام اور مؤذن بطور خود اپنی اجرت مقرر نہ کرائیں بلکہ لوگ ان کے پاس ان کی حاجت کے مطابق روپیہ پیسہ از خود بھیج دیا کریں تو یہ جائز و حلال ہوگا۔ لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ وہ امام و مؤذن کی خبر گیری کریں اور ان کے پاس از خود اتنا روپیہ اور مال بھجوا دیا کریں جس سے ان کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ فتاوی قاضی خاں میں مرقوم ہے کہ جو مؤذن اوقات نماز وغیرہ کے سلسلہ میں علم نہیں رکھتا اسے اذان کہنے کا ثواب نہیں ملتا، اس لئے جو مؤذن اجرت لے گا اسے تو بطریق اولیٰ ثواب نہیں ملے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں