مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 7

ایمان کی لذت

راوی:

وعن أنس رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم " ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان : من كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما ومن أحب عبدا لا يحبه إلا لله ومن يكره أن يعود في الكفر بعد أن أنقذه الله منه كما يكره أن يلقى في النار "

" اور حضرت انس راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جس آدمی میں یہ تین چیزیں ہوں گی وہ ان کی وجہ سے ایمان کی حقیقی لذت سے لطف اندوز ہوگا، اول یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسول کی محبت دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ ہو، دوسرا یہ کہ کسی بندہ سے اس کی محبت محض اللہ ( کی خوشنودی) کے لئے ہو۔ تیسرے یہ کہ جب اسے اللہ نے کفر کے اندھیرے سے نکال کر ایمان و اسلام کی روشنی سے نواز دیا ہے تو اب وہ اسلام سے پھر جانے کو اتنا ہی برا جانے جتنا آگ میں ڈالے جانے کو '۔ صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح :
کمال ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مومن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت اس درجہ رچ بس جائے کہ ان کے ماسوا تمام دنیا اس کے سامنے کم تر ہو۔
اس طرح یہ شان بھی مومن کامل ہی کی ہو سکتی ہے کہ اگر وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو محض اللہ کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور اگر کسی سے بغض و عداوت رکھتا ہے تو وہ بھی اللہ کی راہ میں غرض کہ اس کا جو بھی عمل ہو صرف اللہ کے لئے ہو اور اس کے حکم کی تکمیل میں ہو۔
ایسے ہی ایمان کا پختگی کے ساتھ دل میں بیٹھ جانا اور اسلام پر پختگی کے ساتھ قائم رہنا اور کفر و شرک سے اس درجہ بیزاری و نفرت رکھنا کہ اس کے تصور و خیال کی گندگی سے بھی دل پاک و صاف رہے، ایمان کے کامل ہونے کی دلیل ہے۔
اسی لئے اس حدیث میں فرمایا گیا کہ ایمان کی حقیقی دولت کا مالک اور اس پر جزاء و انعام کا مستحق تو وہی آدمی ہے جو ان تینوں اوصاف سے پوری طرح متصف ہو اور ایمان کی حقیقی لذت کا ذائقہ وہی چکھ سکتا ہے جس کا دل ان چیزوں کی روشنی سے منور ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں