مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 714

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ص قَالَ قُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَیُّ مَسْجِدٍ وُّضِعَ فِیْ الْاَرْضِ اَوَّلُ قَالَ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْمَسْجِدُ الْاَقْصٰی قُلْتُ کَمْ بَےْنَھُمَا قَالَ اَرْبَعُوْنَ عَامًا ثُمَّ الاْرَضُ لَکَ مَسْجِدٌ فَحَےْثُ مَا اَدْرَکَتْکَ الصَّلٰوۃُ فَصَلِّ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ !زمین کے اوپر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " مسجد حرام" میں نے عرض کی کہ پھر اس کے بعد ؟ فرمایا: " مسجد اقصی" (یعنی بیت المقدس) پھر میں نے پوچھا کہ ان دونوں مسجدوں (کی بناء) کے درمیان کتنا فرق تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ " چالیس سال" پھر اس کے بعد فرمایا: اب تو ساری زمین تمہارے لئے مسجد ہے (یعنی اس کا ہر حصہ مسجد کا حکم رکھتا ہے کہ ) جہاں نماز کا وقت ہو جائے وہیں نماز پڑھ لو۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
یہاں یہ اشکال وارد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کعبۃ اللہ کو بنانے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور بیت المقدس کی بناء رکھنے والے حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں اور تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک ہزار برس سے زیادہ کا فرق ہے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کس اعتبار سے فرمایا کہ کعبۃ اللہ اور بیعت المقدس کی بناء کے درمیان صرف چالیس سال کا فرق ہے۔ اس کے جواب میں علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ)
" اس حدیث میں ان دونوں مسجدوں کی بناء اول کی طرف اشارہ ہے اور یہ ثابت ہے کہ کعبہ کے بانی اولی حضرت ابراہیم علیہ السلام نہیں ہیں۔ اسی طرح بیت المقدس کے بھی بانی اولی حضرت سلیمان نہیں ہیں بلکہ کعبہ کی بناء سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے رکھی ہے پھر حضرت آدم کے بعد ان کی اولاد تمام روئے زمین پر پھیل گئی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان کی اولاد میں سے کسی نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی ہو اور ان دونوں کے درمیان چالیس سال کا فرق رہا ہو۔ پھر اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو بنایا اور حضرت سلیمان نے بیت المقدس کی تعمیر کی۔
علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ :
مجھے اس حدیث کی توثیق علامہ ابن ہشام کے اس مقولہ سے معلوم ہوتی ہے جو انہوں نے کتاب التسبیحات میں لکھا ہے کہ :
" جب حضرت آدم کعبۃ اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوگئے تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب بیت المقدس کی سیر کر کے اسے بناؤ چنانچہ انہوں نے اس حکم کی تعمیل میں بیت المقدس بنایا اور اس میں عبادت کی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان دونوں کی بناء پر چالیس سال کے عرصے کا فرق ہو۔"
بعض علماء سے اس حدیث کی توجیہ یہ منقول ہے کہ :
" جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ بنایا تو مسجد کی حد مقرر کر دی تھی اسی طرح بیت المقدس کی بھی حد مقرر کر دی ہوگی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان کی حدود کو مقرر کرنے کا درمیانی وقفہ چالیس سال کا ہو۔"

یہ حدیث شیئر کریں