مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 729

ستر ڈھانکنے کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا صَلَّی اَحَدُکُمْ فَلَا یَضَعُ نَعْلَیْہِ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَلَا عَنْ یَسَارِہٖ فَتَکُوْنَ عَنْ یَمِیْنِ غَیْرِہٖ اِلَّا اَنْ لَا یَکُوْنَ عَلَی یَسَارِہِ اَحَدٌ وَ لْیَضَعْھُمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ وَفِی رِوَایَۃٍ اَوْلِیُصَلِّ فِیْھِمَا۔ (رواہ ابوداؤد روی ابن ماجۃ، معناہ)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو اپنے جوتے کو نہ اپنی دائیں طرف رکھے اور نہ بائیں طرف ہی رکھے کیونکہ ادھر دوسرے آدمی کی دائیں جانب ہوگی۔ ہاں اگر کوئی بائیں جانب نہ ہو تو ادھر رکھ لے (ورنہ) اسے چاہئے انہیں اپنے دونوں پیروں کے درمیان (یعنی اپنے آگے پیروں کے پاس) رکھ لے اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یا " (اگر جوتے پاک ہوں تو ان کو اتارنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ) انہیں پہنے ہی پہنے نماز پڑھ لے۔" (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ نماز کے دوران جوتے اپنی دائیں طرف نہ رکھے جائیں اور بائیں طرف بھی اس لئے نہ رکھے جائیں کہ جو آدمی اس کے بائیں طرف کھڑا ہوگا یہ جوتا جو اپنے بائیں طرف رکھا گیا ہے اس آدمی کے دائیں طرف پڑے گا۔ لہٰذا جب اپنی دائیں طرف جوتا رکھنا پسند نہ کیا تو اس جوتے کو دوسرے آدمی کے دائیں طرف کیوں رکھا جائے کیونکہ مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے اپنے ساتھی کے لئے بھی اس چیز کو پسند کرے اور جس چیز کو اپنے لئے نا پسند کرتا ہے اسے اپنے ساتھی کے لئے بھی نا پسند کرے۔

یہ حدیث شیئر کریں