مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 10

بیمار کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاء شفائ

راوی:

وعن عائشة رضي الله عنها قالت : كان إذا اشتكى الإنسان الشيء منه أو كانت به قرحة أو جرح قال النبي صلى الله عليه و سلم بأصبعه : " بسم الله تربة أرضنا بريقة بعضنا ليشفى سقيمنا بإذن ربنا "

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے بدن کے کسی حصہ (کے درد) کی شکایت کرتا، یا (اس کے جسم کے کسی عضو پر) پھوڑا یا زخم ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی انگلی سے اشارہ کر کے یہ دعا فرماتے اللہ کے نام سے میں برکت حاصل کرتا ہوں، یہ مٹی ہمارے بعض آدمیوں کے لعاب دہن سے آلودہ ہے (یہ ہم اس لئے کہتے ہیں تاکہ) ہمارے پروردگار کے حکم سے ہمارا بیمار تندرست ہو جائے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
منقول ہے کہ اس بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب مبارک اپنی انگلی پر لگاتے اور اسے مٹی پر رکھتے پھر اس خاک آلودہ انگلی کو درد کی جگہ رکھ کر اس عضو پر پھیرتے جاتے تھے اور مذکورہ بالا دعا یعنی بسم اللہ الخ پڑھتے رہتے۔
پھوڑوں اور زخموں کے علاج کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ طریقہ اور یہ دعا درحقیقت رموز الٰہی میں سے ایک رمز ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی جانتے تھے ہماری عقلیں اس رمز کی حقیقت تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ تاہم قاضی بیضاوی رحمہ اللہ نے از راہ احتمال کے لکھا ہے کہ طبی نقطہ نظر سے یہ بات ثابت ہے کہ تبدیلی مزاج کے سلسلہ میں لعاب دہن بہت موثر ہوتا ہے اسی طرح مزاج کو اپنی حالت پر برقرار رکھنے کے لئے وطن کی مٹی بہت تاثیر رکھتی ہے یہاں تک کہ حکماء لکھتے ہیں کہ مسافر کو چاہئے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے وطن کی کچھ خاک ضرور رکھے اور تھوڑی سی خاک پانی کے برتن میں ڈال دے اور اسی برتن سے دوران سفر پیتا رہے تاکہ اس کی وجہ سے مزاج کی تبدیلی سے محفوظ رہے۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی بناء پر یہ طریقہ اختیار فرماتے ہوں۔ نیز دوسرے شارحین نے بھی اس کی توجیہات بیان کی ہیں مگر وہ سب احتمال ہی کے درجہ میں ہیں۔ صحیح یہی ہے کہ اللہ کا بھید ہے جس کی حقیقت تک ہماری عقلوں کی رسائی ممکن نہیں ہے۔
اشرف رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث رقیہ یعنی منتر کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے بشرطیکہ اس منتر میں کفر کی آمیزش نہ ہو جیسے سحر یا کلمہ کفر و شرک وغیرہ۔ نیز اس سلسلہ میں مسئلہ یہ ہے کہ منتر خواہ کسی بھی زبان کا ہو، ہندی و اردو کا ہو یا عربی و فارسی اور ترکی وغیرہ کا، اس کا پڑھنا اس وقت تک درست نہیں ہے تا وقتیکہ اس کے معنی معلوم نہ ہو جائیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں الفاظ کفر ہوں۔ہاں حدیث میں ایک منتر بسم اللہ شجۃ قرنیۃ الخ بچھو کے کاٹے کے لئے منقول ہے اگرچہ اس کے معنی معلوم نہیں ہیں مگر اس کا پڑھنا جائز ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں