مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جامع دعاؤں کا بیان ۔ حدیث 1023

ایک عمدہ دعا

راوی:

وعن ابن عمر قال : قلما كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يقوم من مجلس حتى يدعو بهؤلاء الدعوات لأصحابه : " اللهم اقسم لنا من خشيتك ما تحول به بيننا وبين معاصيك ومن طاعتك ما تبلغنا به جنتك ومن اليقين ما تهون به علينا مصيبات الدنيا ومتعنا بأسماعنا وأبصارنا وقوتنا ما أحييتنا واجعله الوارث منا واجعل ثأرنا على من ظلمنا وانصرنا على من عادانا ولا تجعل مصيبتنا في ديننا ولا تجعل الدنيا أكبر همنا ولا مبلغ علمنا ولا تسلط علينا من لا يرحمنا " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن غريب

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مجلس سے اٹھتے ہوں اور ان کلمات کے ذریعے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لئے دعا نہ مانگتے ہوں۔ (کیونکہ مجلس اور دعا میں صحابہ بھی شامل ہوتے تھے۔ یا کہ ان کی تعلیم کے لئے یہ دعا مانگتے تے۔ (اللہم اقسم لنا من خشیتک ماتحول بہ بیننا وبین معاصیک ومن طاعتک ما تبلغنا بہ جنتک ومن الیقین ماتھون بہ علینا مصیبات الدنیا ومتعنا باسماعنا وابصارنا وقوتنا ما احییتنا واجعلہ الوارث منا واجعل ثارنا علی من ظلمنا وانصرنا علی من عادانا ولا تجعل مصیبتنا فی دیننا ولا تجعل الدنیا اکبر ہمنا ولا مبلغ علمنا ولا تسلط علینا من لا یرحمنا) ۔ اے اللہ! تو ہم میں اپنا اتنا خوف پیدا کر دے کہ تو اس کی وجہ سے ہمارے اور گناہوں کے درمیان حائل ہو جائے (یعنی اس خوف کی وجہ سے ہم گناہوں سے بچیں) اور ہمیں اپنی اتنی اطاعت نصیب کر کہ اس کی وجہ سے ، ہمیں بہشت کے (عالی درجات) میں پہنچا دے ہمیں اتنا یقین عطا فرما کہ اس کی وجہ سے تو ہم پر دنیا کی مصیبتیں آسان کر دے، ہمیں ہمارے سماعتوں، ہماری بینائیوں اور ہماری قوتوں سے اس وقت تک بہرہ مند رکھ جب تک کہ تو ہمیں زندہ رکھے اور بہرہ مندی کو ہمارا ورثہ قرار دے یعنی ہمارے تمام اعضاء و حو اس کو آخر تک برقرار و سلامت رکھ ہمارے کینہ و انتقال میں اس شخص کو مبتلا کر جس نے ہم پر ظلم کیا (یعنی ہمیں اتنی طاقت و قوت دے کہ ہم اپنے ظالموں سے بدلہ لے سکیں، یا ہماری طرف سے تو ان سے بدلہ لے) ہمیں فتح عطا فرما اس شخص سے جو ہم سے دشمنی رکھے خواہ وہ ہمارا دینی دشمن ہو یا دنیاوی دشمن ہماری مصیبتوں کو ہمارے دین میں مؤثر نہ کر (یعنی ہمیں ایسی مصیبتوں میں مبتلا نہ کر جو دین کے نقصان کا باعث ہوں۔ دنیا کو ہمارے لئے فکر کا مرکز اور ہمارے مبلغ علم کو ہمارا مطمع نظر بنا۔ اور ہم پر ان لوگوں کو مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کریں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
" ہمیں اتنا یقین عطا فرما " کا مطلب یہ ہے کہ تو اپنی ذات و صفات پر اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات و تعلیم پر ہمیں اس درجہ کا یقین و اعتماد عطا فرما کہ دنیا کی سختیاں اور یہاں کے مصائب و آلام ہمارے لئے آسان ہوں۔ مثلاً جس شخص کو یہ یقین ہو گا کہ اللہ تعالیٰ رازق ہے ہر جاندار کی ضروریات زندگی پورا کرتا ہے تو اسے ہرگز کوئی فکر نہیں ہو گی اور وہ اس کی ذات پر بھروسہ و اعتماد کرے گا اسی طرح جسے اس یقین کی دولت حاصل ہو جائے گی کہ آخرت کی سختیاں اور وہاں کے مصائب زیادہ سخت ہیں۔ دنیا کی سختیاں بالکل ناپائیدار اور ختم ہو جانے والی ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو اس کے لئے دنیا کی مصیبتیں آسان ہو جائیں گی وہ بڑی سے بڑی دنیاوی مصیبت و سختی کا کوئی احساس نہیں کرے گا لہٰذا اے اللہ ! تو ہمیں یقین و اعتماد و توکل و بھروسہ کی اسی عظیم دولت سے بہرہ ور فرما۔
" دنیا کو ہمارے لئے فکروں کو مرکز نہ بنا " کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کی بہت زیادہ فکر و تدبیر میں نہ لگے رہیں۔ بلکہ آخرت کی فکر، وہیں کے اندیشہ کا زیادہ خیال رکھیں، دنیا کی صرف اتنی ہی فکر اور اپنے معاش کا صرف اتنا ہی خیال رکھیں جو ضروری ہے اور جس کے لئے نہ صرف ہمیں اجازت ہے بلکہ مستحب بھی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں