مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ احرام باندھنے اور لبیک کہنے کا بیان ۔ حدیث 1084

تلبید وتلبیہ

راوی:

وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يهل ملبدا يقول : " لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك " . لا يزيد على هؤلاء الكلمات

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلبیہ اس طرح بآواز بلند کہتے سنا اور اس وقت آپ تلبید کئے ہوئے تھے ۔ لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ یعنی حاضر ہوں میں تیری خدمت میں اے اللہ! حاضر ہوں تیری خدمت میں ، میں تیری خدمت میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، حاضر ہوں میں تیری خدمت میں بے شک تمام تعریف اور ساری نعمت تیرے ہی لئے ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کلمات سے زیادہ نہیں کہتے تھے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
تلبید کرنا یہ کہ محرم (احرام باندھنے والا) اپنے سر کے بالوں میں گوند یا خطمی یا مہندی یا اور کوئی چیز لگا لیتا ہے تاکہ بال آپس میں یکجا رہیں اور چپک جائیں ان میں گرد و غبار نہ بیٹھے اور جوؤں سے محفوظ رہیں۔
تلبیہ یعنی لبیک کہنے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں ۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک احرام کے صحیح ہونے کے لئے تلبیہ شرط ہے ، حضرت امام مالک کہتے ہیں کہ تلبیہ واجب نہیں ہے لیکن تلبیہ ترک کرنے کی وجہ سے دم (جانور ذبح کرنا) لازم آتا ہے اور حضرت امام شافعی کے ہاں تلبیہ سنت ہے اس کو ترک کرنے کی صورت میں دم لازم نہیں ہوتا۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلبیہ میں اکثر اتنے ہی الفاظ کہتے تھے کیونکہ اور روایتوں میں تلبیہ کے الفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ بھی منقول ہیں چنانچہ اس بارہ میں مسئلہ یہ ہے کہ تلبیہ کے جو الفاظ یہاں حدیث میں نقل کئے گئے ہیں، ان میں کمی کرنا تو مکروہ ہے زیادتی مکروہ نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔
حدیث سے یہ مسئلہ بھی واضح ہو گیا کہ تلبیہ بآواز بلند ہونا چاہئے چنانچہ تمام علماء کے نزدیک بلند آواز سے لبیک کہنا مستحب ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں