مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ مناروں پر کنکریاں پھینکنے کا بیان ۔ حدیث 1167

رمی جمار کے وقت تکبیر

راوی:

وعن عبد الله بن مسعود : أنه انتهى إلى الجمرة الكبرى فجعل البيت عن يساره ومنى عن يمينه ورمى بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة ثم قال : هكذا رمى الذي أنزلت عليه سورة البقرة

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ (رمی کے لئے) جمرہ کبریٰ (یعنی جمرہ عقبہ) پر پہنچے تو (اس طرح کھڑے ہوئے کہ) انہوں نے خانہ کعبہ کو اپنی بائیں طرف کیا اور منیٰ کو دائیں طرف اور پھر انہوں نے سات کنکریاں (اس طرح ) پھینکیں کہ ہر کنکری پھینکتے ہوئے تکبیر کہتے تھے، پھر انہوں نے فرمایا کہ اسی طرح اس ذات گرامی (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے پھینکی ہیں جس پر سورت بقرہ نازل ہوئی ہے۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمرہ عقبہ پر اس طرح کھڑے ہوئے کہ خانہ کعبہ تو ان کی بائیں سمت میں تھا اور منیٰ دائیں سمت لیکن دوسرے جمرات پر اس طرح کھڑا ہونا مستحب ہے کہ منہ قبلہ کی طرف ہو۔
رمی جمرہ میں سات کنکریاں پھینکی جاتی ہیں اور ہر کنکری پھینکتے ہوئے تکبیر کہی جاتی ہے چنانچہ بیہقی کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر کنکری کے ساتھ اس طرح تکبیر کہتے تھے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر دعا (اللہم اجعلہ حجا مبرورا وذنبا مغفورا عملا مشکورا)۔
یوں تو پورا قرآن ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے لیکن اس موقع پر خاص طور پر سورت بقرہ کا ذکر اس مناسبت سے کیا گیا ہے کہ اس سورت میں حج کے احکام و افعال مذکور ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں