مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ سر منڈانے کا بیان ۔ حدیث 1213

ابطح میں قیام سنت ہے یا نہیں ؟

راوی:

وعن عائشة رضي الله عنها قالت : نزول الأبطح ليس بسنة إنما نزله رسول الله صلى الله عليه و سلم لأنه كان أسمح لخروجه إذا خرج

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ابطح میں اترنا یعنی ٹھہرنا سنت نہیں ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو وہاں صرف اس لئے اترے تھے کہ مکہ سے چلنے میں آسانی ہو جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے واپس ہوئے تھے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تیرہویں ذی الحجہ کو منیٰ سے لوٹے تو ابطح یعنی محصب میں صرف اس غرض سے ٹھہر گئے تھے تاکہ وہاں اپنا سامان وغیرہ چھوڑ کر مکہ جائیں اور وہاں طواف الوداع کریں اور جب مکہ سے مدینہ واپس ہوں تو اس وقت سامان وغیرہ ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے آسانی ہو۔
اس بارہ میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو اس میں اختلاف ہے، بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ تحصب یعنی محصب میں ٹھہرنا سنت ہے اور افعال حج کا ایک تتمہ ہے۔ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے، ان کے نزدیک قیام محصب کے مسنون ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منیٰ میں فرمایا تھا کہ کل ہم انشاء اللہ خیف بنی کنانہ یعنی محصب میں ٹھہریں گے ، اور اس کا سبب یہ تھا کہ خیف بنی کنانہ ہی وہ جگہ ہے جہاں مشرکین مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی زندگی میں باہم یہ عہد و پیمان کیا تھا اور یہ قسم کھائی تھی کہ ہم بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب یعنی ان دونوں خاندانوں کے لوگوں سے میل جول، نکاح بیاہ، خرید و فروخت اور ان میں اٹھنا بیٹھنا اس وقت تک چھوڑے رہیں گے جب تک یہ لوگ محمد کو ہمارے سپرد نہ کر دیں گے گویا اس مقام پر انہوں نے ان خاندانوں سے مکمل مقاطعہ اور بائیکاٹ کا اعلان کر کے شعائر کفر کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی قوت کو غالب فرمایا اور کفر و شرک کا پھیلاؤ دور ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقوع پر منیٰ سے مکہ کو واپس ہوتے ہوئے یہ چاہا کہ اس جگہ یعنی خیف بنی کنانہ (محصب) میں ٹھہر کر شعائر اسلام کو ظاہر کریں جہاں کچھ ہی سال پیشتر کفار نے شعائر کفر کو ظاہر کیا تھا اور اس طرح وہاں اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کیا جو اس نے اسلام کو غلبہ اور عظمت دے کر عطا فرمائی تھیں۔
طبرانی نے اوسط میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یوم النفر کی رات میں ابطح میں ٹھہرنا منجملہ سنت ہے، نیز یہ کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو اس رات میں ابطح میں ٹھہرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔
فقہ حنفی کی مشہور تین کتاب ہدایہ میں لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابطح میں اس مقصد سے قیام فرماتے تھے کہ مشکرین کو اللہ تعالیٰ کی قدرت دکھائیں کہ کل جس جگہ انہوں نے مکمل مقاطعہ کا عہد و پیمان کر کے اپنی برتری کا اظہار کیا تھا آج وہی جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کے زیر تسلط ہے، چنانچہ اس جگہ رات میں قیام سنت ہے۔
اس کے برخلاف ، بعض حضرات کہتے ہیں کہ محصب میں قیام سنت نہیں ہے کہ کیونکہ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام محض اتفاقی طور پر ہو گیا تھا جس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابورافع جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامان سفر کے نگران تھے اپنی رائے سے اور اتفاقی طور پر وہاں رک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیمہ نصب کر دیا، اس بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی حکم نہیں تھا۔ قیام محصب کو سنت نہ کہنے والوں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا۔
بہرکیف اس بارہ میں بہتر بات یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محصب میں ٹھہرنا منقول ہے چاہے وہ ٹھہرنا اتفاقی طور پر ہی کیوں نہ رہا ہو تو اچھا یہی ہے کہ وہاں قیام کر لیا جائے جیسا کہ دیگر صحابہ اور خلفاء راشدین بھی اس پر عمل کرتے تھے اور اگر کوئی شخص وہاں نہ ٹھہرے تو اس میں کوئی نقصان بھی نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں