مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ محرم کے لئے شکار کی ممانعت کا بیان ۔ حدیث 1256

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احصار کا بیان

راوی:

عن ابن عباس قال : قد أحصر رسول الله صلى الله عليه و سلم فحلق رأسه وجامع نساءه ونحر هديه حتى اعتمر عاما قابلا . رواه البخاري

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ واقعہ حدیبیہ کے سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عمرہ سے روکا گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر منڈوا یا اور احرام کھولنے کے بعد اپنی ازواج مطہرات سے ہم بستر ہوئے اور اپنی ہدی کا جانور ذبح کیا، پھر اگلے سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا عمرہ ادا کیا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
روکا گیا کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ کو روانہ ہوئے مگر حدیبیہ کے مقام پر مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مع رفقاء کے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرہ نہ کر سکے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں احرام کھول دیا۔
ابن ہمام فرماتے ہیں کہ ہدایہ کے ان الفاظ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ محصر ہدی کا جانور ذبح ہونے سے پہلے احرام نہیں کھولتا اسی لئے یہ مسئلہ ہے کہ اگر کسی محصر نے ہدی کا جانور حرم روانہ کیا اور اس جانور کو لے جانے والے سے یہ تاکید کی کہ اس جانور کو فلاں دن اور فلاں وقت ذبح کر دینا اور پھر اس نے اس متعین دن میں یہ سمجھ کر کہ اب جانور ذبح ہو گیا ہو گا اپنے کو احرام سے باہر سمجھ لیا اور کوئی ایسا فعل کیا جو حالت احرام میں ممنوع ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ہدی کا وہ جانور اس متعین دن ذبح نہیں ہوا تھا یا ذبح تو اسی دن ہوا تھا مگر حرم میں ذبح ہونے کی بجائے حرم سے باہر ذبح ہو گیا تھا تو اس صورت میں اس نے خلاف احرام جس قدر فعل کئے ہوں گے ہر فعل کے عوض جزاء دینی پڑے گی۔
احصار کی ہدی کہاں ذبح کیا جائے؟
احصار کی ہدی کے علاوہ باقی ہدایا کے بارہ میں تو حنفیہ اور شوافع کا اتفاق ہے کہ وہ حرم کے علاوہ اور کہیں ذبح نہ کی جائیں مگر حج یا عمرہ کے احصار کی ہدی کہاں ذبح کی جائے؟ اس بارہ میں دونوں کے اختلافی اقوال ہیں۔ حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ احصار کی ہدی اسی جگہ ذبح کی جائے جہاں احصار کی صورت پیش آئی ہو جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ احصار کی ہدی حرم میں بھیجی جائے اور وہاں ذبح ہو ، حرم کے علاوہ اور کہیں ذبح نہ کی جائے، کیونکہ خاص دنوں میں اور خاص موقع پر ہدی کا ذبح ہونا عبادت ہے۔ اور جب یہ بات ہے کہ ایک خاص وقت اور خاص جگہ ہدی کا ذبح کرنا عبادت شمار کیا جاتا ہے تو اگر اس کے خلاف کیا گیا یعنی اس ہدی کو ذبح کرنے کی جو خاص جگہ یعنی حرم ہے اگر وہاں یہ ہدی ذبح نہ کی گئی تو عبادت کہاں رہی اور جب عبادت نہ رہی تو اس کی وجہ سے حلال ہونا یعنی احرام کھولنا کس طرح درست ہوگا۔
حضرت امام شافعی کی دلیل مذکورہ بالا حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے اپنی ہدی حدیبیہ میں ذبح کی جو حل میں یعنی حرم سے باہر ہے۔ اس کا جواب حنفیہ کی جانب سے یہ دیا جاتا ہے کہ اس موقع پر ہدی کے جانوروں کا حرم میں پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا اس مجبوری کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور صحابہ نے اپنی ہدی وہیں ذبح کر دی۔ نیز بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ حدیبیہ کا کچھ حصہ تو حل میں ہے اور کچھ حصہ حرم میں ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ نے ہدی کے جانور حدیبیہ کے اس حصہ میں ذبح کئے ہوں جو حرم میں شامل ہے۔
محصر پر قضا واجب ہے
جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب احصار کی وجہ سے عمرہ ادا نہ کر سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آئندہ سال یعنی۷ھجری میں اس عمرہ کو پورا کیا چنانچہ اس عمرہ کو عمرۃ القضاء کہا گیا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر کوئی محصر ہو جائے یعنی اسے حج یا عمرہ سے روک دیا جائے تو وہ اس کی قضاء کرے اس لئے حنبفیہ کے مسلک میں اس کی قضا واجب ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں محصر پر اس کی قضا واجب نہیں ہوتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ٧ھجری میں جو عمرہ کیا اس کا نام عمرۃ القضا ہونا حنفیہ کے مسلک کی تائید کرتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں