مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ میت پر رونے کا بیان ۔ حدیث 224

مرجانے والی چھوٹی اولاد ذخیرآخرت ہوتی ہے

راوی:

وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :
من كان له فرطان من متي أدخله الله بهما الجنة " . فقالت عائشة : فمن كان له فرط من أمتك ؟ قال : " ومن كان له فرط يا موفقة " . فقالت : فمن لم يكن له فرط من أمتك ؟ قال : " فأنا فرط أمتي لن يصابوا بمثلي " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میری امت میں سے جس شخص کے دو بچے بالغ ہونے سے پہلے مر گئے اللہ تعالیٰ اسے ان دونوں بچوں کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا " (یہ سن کر حضرت عائشہ نے پوچھا کہ اور آپ کی امت میں سے جس شخص کا ایک ہی بچہ مرا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے موفقہ! جس شخص کا ایک بچہ مرا ہو اس کے لئے بھی یہ بشارت ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پھر پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں اگر جس شخص کا ایک بچہ بھی نہ مرا ہو؟ تو اس کے لئے کیا بشارت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر میں تو اپنی امت کا میر منزل ہوں ہی کیونکہ میری (وفات کی) مصیبت جیسی کسی اور مصیبت سے دوچار نہ ہوئے ہوں گے۔ (ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
" فرط" اس شخص کو کہتے ہیں جو قافلہ سے پہلے منزل پر پہنچ کر اہل قافلہ کے لئے سامان خوردونوش تیار کرتا ہے یہاں اس حدیث میں مذکور " فرط' سے مراد وہ بچہ ہے جو بالغ ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو پیارا ہو جائے ایسے بچہ کو " فرط" اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آخرت میں پہلے پہنچ کر اپنے والدین کے لئے جنت کی نعمتوں کا انتظام کرتا ہے یعنی وہ اپنے ماں باپ کو اللہ رب العزت سے سفارش و شفاعت کر کے جنت میں لے جائے گا۔ ہاں حدیث کے آخری جملہ فانا فرط امتی الخ میں فرط سے فوت شدہ نابالغ بچے مراد نہیں ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ کو کمال تعلق اور ان کی ذات خصوصیت نیز ان کے اوصاف فضائل کی بنا پر موفقہ کہہ کر مخاطب کیا جو مجموعہ فضل و کمال لقب ہے اس کے معنیٰ ہیں کہ اے عائشہ کہ جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و بھلائی اور اچھی باتوں کے پوچھنے کی توفیق عطا کی گئی ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنی امت کے میر منزل ہوں بایں طور کہ میں ان سے پہلے آخرت میں پہنچ کر شفاعت کروں گا اور ان کو جنت میں لے جاؤں گا کیونکہ ثواب مصیبت اور مشقت کے بقدر ہوتا ہے یعنی مصیبت و مشقت جتنی سخت و شدید ہوتی ہے اتنا ہی ثواب زیادہ ملتا ہے لہٰذا اس دنیا سے میرا اٹھ جانا اس کے لئے اتنی بڑی مصیبت اور اتنا بڑاحادثہ ہے کہ اور کوئی مصیبت نہیں ہو سکتی، لہٰذا میرے بعد میری امت کا ہر فرد حقیقۃً اور حکماً اس حادثہ و مصیبت سے دوچار ہو گا اس لئے جن لوگوں کی چھوٹی اولاد فوت ہو کر ان کے لئے ذخیرہ آخر نہ بھی ہوئی ہو گی تو میرے وصال کا یہ حادثہ ہی ان کے لئے مذکورہ بالا سعادت و بشارت کے طور پر کافی ہو گا۔

یہ حدیث شیئر کریں