مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ میت پر رونے کا بیان ۔ حدیث 234

میت پر رونے کی ممانعت

راوی:

وعن أم سلمة قالت : لما مات أبو سلمة قلت غريب وفي أرض غربة لأبكينه بكاء يتحدث عنه فكنت قد تهيأت للبكاء عليه إذ أقبلت امرأة تريد أن تسعدني فاستقبلها رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " أتريدين أن تدخلي الشيطان بيتا أخرجه الله منه ؟ " مرتين وكففت عن البكاء فلم أبك . رواه مسلم

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میرے پہلے خاوند حضرت ابوسلمہ کا انتقال ہوا تو میں نے کہا کہ ابوسلمہ مسافر تھے اور حالت مسافرت ہی میں مرے میں بھی ان کے لئے اس طرح روؤں گی کہ میرا رونا بیان کیا جائے گا (یعنی لوگوں میں چرچا ہو گا کہ ام سلمہ اس قدر روئی کہ اتنا کوئی بھی نہیں رویا) چنانچہ میں رونے کی تیاریوں میں مصروف تھی کہ اچانک ایک عورت آئی جو (رونے میں) میرے ساتھ شریک ہونے کا ارادہ رکھتی تھی، اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے سامنے آ گئے اور فرمانے لگے کہ کیا تمہارا یہ ارادہ ہے کہ شیطان کو اس گھر میں داخل کرو جس گھر سے اللہ تعالیٰ نے اسے دو مرتبہ نکالا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر میں رونے سے رک گئی اور پھر میں (اس طرح) نہیں روئی (جس کی شریعت نے ممانعت کی ہے) (مسلم)

تشریح
میں تو رونے کی تیاریوں میں مصروف تھی، کا مطلب یہ ہے کہ میں رونے کا ارادہ کر رہی تھی اور اس موقع پر رونے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے سیاہ کپڑے وغیرہ انہیں مہیا کر رہی تھی۔
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ام سلمہ کو اس وقت تک یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ چلا چلا کر رونا اور نوحہ کرنا حرام ہے اگر انہیں ایسا معلوم ہوتا تو یقینی بات ہے کہ وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کریں جو شریعت کی رو سے ناجائز وحرام ہے۔
گھر میں سے دو مرتبہ شیطان کے نکلنے سے یا تو یہ مراد ہے کہ ایک مرتبہ تو اس وقت شیطان گھر سے نکال دیا گیا تھا جب کہ ابوسلمہ کفر و شرک کا سیاہ پراہن اتار کر ایمان و اسلام کا نورانی خلعت زیب تن کیا تھا اور دوسری مربتہ گھر سے اس وقت شیطان کو نکال دیا گیا جب کہ ابوسلمہ ظلم و جہل سے بھرپور اس دنیا سے ایمان و اسلام کے ساتھ رخصت ہو گئے تھے۔

یہ حدیث شیئر کریں