مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ قبروں کی زیارت کا بیان ۔ حدیث 264

زیارت قبور کی اجازت اور اس کی علت

راوی:

وعن ابن مسعود أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها فإنها تزهد في الدنيا وتذكر الآخرة " . رواه ابن ماجه

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا " میں نے پہلے تمہیں قبروں پر جانے سے منع کیا تھا مگر اب تم قبروں پر جایا کرو کیونکہ قبروں پر جانا دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتا ہے اور آخرت کی یاد دلاتا ہے" (ابن ماجہ)

تشریح
حدیث میں گویا قبروں پر جانے کی علت بیان فرمائی جا رہی ہے کہ قبروں پر کیوں جانا چاہئے؟ چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ قبروں پر جانا درحقیقت انسان کے دل دماغ میں دنیا اور دنیا کی چیزوں سے بے رغبتی کا احساس پیدا کرتا ہے کہ جب انجام کار یہی ہے تو دنیا میں دل لگانا اور اپنی زندگی پر گھمنڈ کرنا بے کار ہے چنانچہ بڑے بڑے انسان اس دنیا میں پیدا ہوئے کسی نے اپنی سلطنت و حکومت کا سہارا لے کر خدائی کا دعویٰ کیا کسی نے طاقت و دولت کے نشہ میں اپنی برتری و سطوت کا مظاہر کیا، کسی نے سائنس و ایجادات کے فریب میں قدرت سے مقابلہ کی ٹھانی اور کسی نے جاہ اقتدار کے بل بوتہ پر امن و سکون کے لالہ زاروں کو دہکتی ہوئی جہنم اور بہتے ہوئے خون کے دریا میں تبدیل کر دیا مگر انجام کیا ہوا کہ جب انہیں مٹی کے تو دوں میں دبایا گیا تو کوئی نام لیوا نہ رہا جب ان کی لاشوں کو دریا کی آغوش میں ڈال دیا گیا تو موجوں کے ایک ہی تھپیڑے نے غرور نخوت کے مجسمہ کو دریائی جانوروں کے منہ میں پہنچا دیا اور جب ان کے جسم کو آگ کے شعلوں کے حوالے کر دیا گیا تو بے چارگی و بے مائیگی بے اختیار مسکرا اٹھی۔
قبروں پر جانے کی دوسری وجہ یہ بیان فرمائی گئی کہ آخرت کی یاد دلاتا ہے یعنی قبروں پر پہنچ کر یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ اس عالم کے علاوہ ایک عالم اور ہے جہاں جانا ہے اور وہاں جا کر اس عالم کے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ قبرستان پہنچ کر قبروں کو عبرت کی نظروں سے دیکھا جائے اور موت کو یاد کیا جائے کہ موت کی یاد ہی درحقیقت دنیاوی لذتوں کے فریب کا پردہ چاک کرنے والی اور گناہوں و معصیت کی ہر کدورت کو صاف کرنے والی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں