مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جن لوگوں کو زکوۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان ۔ حدیث 332

حضرت عمر رضی اللہ کا ایک واقعہ

راوی:

عن زيد بن أسلم قال : شرب عمر بن الخطاب رضي الله عنه لبنا فأعجبه فسأل الذي سقاه : من أين هذا اللبن ؟ فأخبره أنه ورد على ماء قد سماه فإذا نعم من نعم الصدقة وهم يسقون فحلبوا من ألبانها فجعلته في سقائي فهو هذا : فأدخل عمر يده فاستقاءه . رواه مالك والبيهقي في شعب الإيمان

حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک دن امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے دودھ نوش فرمایا تو انہیں بہت اچھا لگا جس شخص نے انہیں دودھ پلایا تھا اس سے انہوں نے پوچھا کہ یہ دودھ کہاں کا ہے؟ اس نے انہیں بتایا کہ ایک پانی پر یعنی نام لے کر بتایا کہ فلاں جگہ جہاں پانی تھا میں گیا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ زکوۃ کے بہت سے اونٹ موجود ہیں اور انہیں پانی پلایا جا رہا ہے پھر اونٹ والوں نے اونٹوں کا تھوڑا سا دودھ نکالا اس میں سے تھوڑا سا دودھ میں بھی لے کر اپنی مشک میں ڈال لیا یہ وہی دودھ ہے یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے منہ میں ڈالا اور قے کر دی۔ (مالک، بیہقی)

تشریح
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل کمال تقویٰ اور انتہائی ورع کی بناء پر تھا ورنہ تو جہاں تک مسئلے کی بات ہے یہ تو بتایا جا چکا ہے کہ اگر مستحق زکوۃ کے مال کا مالک ہو جانے کے بعد اسے کسی غیر مستحق زکوۃ کو ہبہ کر دے یا اسے تحفہ کے طور پر دے دے تو اسے استعمال میں لانا اور اسے کھانا جائز ہے چنانچہ ابھی گزشتہ صفحات میں بریرہ کا جو واقعہ گزرا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلہ کے جواز ہی کو بیان فرمایا تھا۔

یہ حدیث شیئر کریں