مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان ۔ حدیث 362

صدقہ دینے والے اور بخیل کی مثال

راوی:

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " مثل البخيل والمتصدق كمثل رجلين عليهما جنتان من حديد قد اضطرت أيديهما إلى ثديهما وتراقيهما فجعل المتصدق كلما تصدق بصدقة انبسطت عنه البخيل كلما هم بصدقة قلصت وأخذت كل حلقة بمكانها "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی ہے جن کے جسم پر لوہے کی زرہیں اور ان زرہوں کے تنگ ہونے کی وجہ سے ان دونوں کے ہاتھ ان کی چھاتیوں اور گردن کی ہنسلی کی طرف چمٹے ہوئے ہوں چنانچہ جب صدقہ دینے کا قصد کرتا ہے تو اس کی زرہ کھل جاتی ہے اور جب بخیل صدقہ دینے کا قصد کرتا ہے تو اس کی زرہ کے حلقے اور تنگ ہو جاتے ہیں اور اپنی جگہ پر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ سخی انسان جب اللہ کی خوشنودی کے لئے اپنا مال خرچ کرنے کا قصد کرتا ہے تو اس جذبہ صدق کی بنا پر اس کا سینہ کشادہ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ اس کے قلب و احساسات کے تابع ہوتے ہیں بایں طور کہ وہ مال خرچ کرنے کے لئے دراز ہوتے ہیں اس کے برخلاف ایسے مواقع پر بخیل انسان کا سینہ تنگ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ سمٹ جاتے ہیں۔
اس مثال کا حاصل یہ ہے کہ جب سخی انسان خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو توفیق الٰہی اس کے شامل حال ہوتی ہے بایں طور کہ اس کے لئے خیر و بھلائی اور نیکی کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے اور بخیل کے لئے نیکی و بھلائی کا راستہ دشوار گزار ہو جاتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں