مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ صدقہ کی فضیلت کا بیان ۔ حدیث 392

کم تر چیز کے تحفے کو حقیر نہ سمجھا جائے

راوی:

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا نساء المسلمات لا تحقرن جارة لجارتها ولو فرسن شاة "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو (تحفہ بھیجنے یا صدقہ دینے کو) حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اپنی پڑوسن کے پاس وہ چیز جو تمہارے پاس موجود ہے بطور تحفہ و صدقہ بھیجنے کو حقیر نہ جانو، گویا تمہارے پاس جو بھی چیز موجود ہو اور جو کچھ بھی ہو سکے خواہ وہ کتنی کم تر کیوں نہ ہو اپنی پڑوسن کو بھیجتی رہا کرو۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی میں ان عورتوں کو خطاب کیا گیا ہے جن کے پاس تحفہ بھیجا جائے لہٰذا اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم میں سے کوئی اپنے ہمسایہ کے تحفے کو حقیر نہ جانے بلکہ اسے برضاء رغبت قبول کرے۔ اگرچہ وہ کتنا ہی کم تر کیوں نہ ہو۔
" بکری کا کھر" ظاہر ہے کہ نہ تو تحفہ میں لینے دینے کے قابل ہوتا ہے اور نہ اس کو بطور صدقہ کسی کو دیا جا سکتا ہے لہٰذا کہا جائے گا یہ یہاں اسے مبالغہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ تحفے میں بھیجی جانے والی یا آنے والی چیز کتنی ہی حقیر اور کمتر کیوں نہ ہو۔
یہاں بطور خاص عورتوں کو اس لئے خطاب کیا گیا ہے کہ ان کے مزاج میں غصہ اور کم تر و حقیر چیزوں کو واپس کر دینے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں