مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ روزہ کو پاک کرنے کا بیان ۔ حدیث 518

روزہ کی حالت میں قے ہونے کا مسئلہ

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من ذرعه القيء وهو صائم فليس عليه قضاء ومن استقاء عمدا فليقض " . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي . وقال الترمذي : هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث عيسى بن يونس . وقال محمد يعني البخاري لا أراه محفوظا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص پر قے غالب آ جائے (یعنی خود بخود قے آئے) اور وہ روزہ سے ہو تو اس پر قضا نہیں ہے اور جو شخص (حلق میں انگلی وغیرہ ڈال کر) قصدا قے کرے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے روزے کی قضا کرے (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی ،) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ہم اس حدیث کو عیسیٰ بن یونس کے علاوہ اور کسی سند سے نہیں جانتے، نیز محمد (یعنی امام بخاری) فرماتے ہیں کہ میں اس حدیث کو محفوظ نہیں سمجھتا (یعنی یہ حدیث منکر ہے)۔

تشریح
ومن استاء عمدا (اور جو شخص قے کرے) میں قصدا کی قید لگا کر گویا بھول چوک کا استثناء فرمایا گیا ہے یعنی اگر کوئی روزہ دار اس حال میں قصدا قے کرے کہ اسے اپنا روزہ یاد ہو تو اس کا روزہ جاتا رہے گا اور اس پر قضا واجب ہو گی برخلاف اس کے اگر کوئی روزہ دار قصدا قے کرے مگر اسے یاد نہ رہا ہو کہ میں روزہ سے ہوں تو اس پر قضا واجب نہیں ہو گی۔ قے کے سلسلے میں پوری وضاحت ابتداء باب میں کی جا چکی ہے۔ اس مسئلہ کو تفصیل کے ساتھ اس موقع پر دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں