مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ لیلۃ القدر کا بیان ۔ حدیث 598

شب قدر کی ایک علامت

راوی:

وعن زر بن حبيش قال : سألت أبي بن كعب فقلت إن أخاك ابن مسعود يقول : من يقم الحول يصب ليلة القدر . فقال رحمه الله أراد أن لا يتكل الناس أما إنه قد علم أنها في رمضان وأنها في العشر الأواخر وأنها ليلة سبع وعشرين ثم حلف لا يستثني أنها ليلة سبع وعشرين . فقلت : بأي شيء تقول ذلك يا أبا المنذر ؟ قال : بالعلامة أو بالآية التي أخبرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم أنها تطلع يومئذ لا شعاع لها . رواه مسلم

حضرت زر بن حبیش رحمہ اللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے (دینی ) بھائی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص تمام سال عبادت کے لئے شب بیداری کرے تو وہ شب قدر کو پا لے گا؟ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر رحم کرے انہوں نے یہ بات اس بنا پر کہی ہے کہ لوگ بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں ورنہ تو جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جانتے تھے کہ شب قدر رمضان میں آتی ہے اور رمضان کے آخری عشرہ کی ایک رات شب قدر ہوتی ہے اور وہ رات ستائیسویں شب ہے پھر ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسی قسم کھائی جس کے ساتھ انشاء اللہ نہ کہا کہ بلاشبہ لیلۃ القدر ستائیسویں شب ہے میں نے عرض کیا ابومنذر!(یہ ابی بن کعب کی کنیت ہے) آپ یہ بات کس دلیل کی بنا پر کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس علامت یا نشانی کی بنا پر جو ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائی ہے کہ اس رات کی صبح آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس میں روشنی نہیں ہوتی چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ ستائیسویں شب کی صبح آفتاب طلوع ہوا تو اس میں روشنی نہیں تھی۔ (مسلم)

تشریح
ان لایتکل الناس (تاکہ لوگ بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں) کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ قول صحیح ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں شب ہے اور ظن غالب کے اعتبار سے اس پر فتویٰ بھی ہے مگر ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو متعین اس لئے نہیں کیا کہ کہیں لوگ اس قول پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں اور یہ جان کر کہ لیلۃ القدر ستائیسویں شب ہی ہے صرف اسی رات میں عبادت کے لئے شب بیداری کریں اور بقیہ راتوں کی شب بیداری ترک کر دیں چنانچہ انہوں نے زیادہ سے زیادہ راتوں میں لوگوں کو شب بیداری کی طرف راغب کرنے کے لئے کہا کہ لیلۃ القدر سال کی کسی بھی شب میں آ سکتی ہے۔
ستائیسویں شب کو لیلۃ القدر قرار دینے کے سلسلہ میں ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قسم کھانا ظن غالب کی بنا پر تھا اسی لئے انہوں نے قسم کھاتے ہوئے انشاء اللہ نہیں کہا ، کیونکہ اگر کوئی شخص قسم کھاتے ہوئے انشاء اللہ بھی کہہ دے تو نہ صرف یہ کہ قسم جزماً (یقینی) نہیں ہوتی بلکہ شرعی طور پر وہ منعقد نہیں ہوتی ، لہٰذا حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قسم کھائی اور انشاء اللہ نہیں کہا تاکہ قسم جزماً ہو۔
اس حدیث میں شب قدر کی ایک علامت بتائی گئی ہے اور وہ یہ کہ جس رات میں شب قدر ہوتی ہے اس کی صبح سورج جب طلوع ہوتا ہے تو کچھ دیر اس میں شعاعیں نہیں ہوتیں چنانچہ بعض ارباب نظر فرماتے ہیں کہ یہ علامت ایسی ہے جس کے واقع ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں