مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ اختلافات قرأت ولغات اور قرآن جمع کرنے کا بیان ۔ حدیث 737

حضرت عبداللہ بن مسعود کے ساتھ ایک واقعہ

راوی:

وعن علقمة قال : كنا بحمص فقرأ ابن مسعود سورة يوسف فقال رجل : ما هكذا أنزلت . فقال عبد الله : والله لقرأتها على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " أحسنت " فبينا هو يكلمه إذ وجد منه ريح الخمر فقال : أتشرب الخمر وتكذب بالكتاب ؟ فضربه الحد

حضرت علقمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم حمص میں کہ (جو ایک شہر کا نام ہے) مقیم تھے وہیں ایک مرتبہ ابن مسعود نے سورت یوسف کی قرأت کی تو ایک شخص نے ان کی قرأت سن کر کہا کہ یہ سورت اس طرح نازل نہیں کی گئی ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں نے یہ سورت اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں پڑھی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے سن کر فرمایا کہ تم نے خوب پڑھا۔ وہ شخص جب حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو کر رہا تھا تو اچانک حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے منہ سے آتی ہوئی شراب کی بو محسوس کی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا تم شراب پیتے ہو؟ یعنی قرآن کے خلاف عمل کرتے ہو اور اس پر طرہ یہ کہ قرآن کریم کو یعنی اس کی قرأت کو یا قرأت کے لہجہ وطرز ادائیگی کو جھٹلاتے بھی ہو۔ پھر حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر حد جاری کی یعنی شراب پینے کی سزا کے طور پر اسے کوڑے مارے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اگر حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت، قرأت مشہورہ (یعنی متواترہ) تھی تو اس شخص نے اس قرت کی تکذیب کر کے کتاب اللہ کی تکذیب کی لہٰذا اس کے اس انکار اور تکذیب نے یقینا اسے کفر کی حد میں داخل کر دیا تھا اور اگر ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت قرأت شاذ تھی تو ان کی اس قرأت کی تکذیب کتاب اللہ کی تکذیب کو مستلزم نہیں تھی اس لئے کہا جائے گا کہ اس صورت میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس شخص سے یہ کہنا کہ تم کتاب اللہ کی تکذیب کرتے ہو ۔ تغلیظا اور تہدیداً تھا اور بظاہر یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ اس موقع پر حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی قرأت شاذ کے مطابق سورت یوسف پڑھ رہے تھے یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کے مرتد ہو جانے کا حکم نہیں لگایا تھا بلکہ صرف شراب کی حد جاری کر دینے ہی پر اکتفا کیا۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کی یہ بات تغلیظاً ہی کہی کیونکہ قرأت و قرآن کے اصل کلمہ کا انکار اور جھٹلانا کفر ہے نہ کہ لہجہ اور ادائیگی کلمات کا انکار کفر کو مستلزم ہے۔
حاصل یہ کہ اس شخص نے لہجہ اور ادائیگی کلمات کا انکار کیا تھا اصل قرآن یا اصل قرأت کا انکار نہیں کیا تھا اسی لئے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر صرف شراب کی حد جاری کی مرتد ہونے کی حد جاری نہیں کی۔
حدیث کے ظاہری مفہوم سے ایک اور مسئلہ پر روشنی پڑ رہی ہے اور وہ یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کو شراب پینے کی سزا دی یعنی اس پر حد جاری کر دی جب کہ شراب نوشی کا بظاہر واحد ثبوت اس کے منہ سے آنے والی بو تھی چنانچہ علماء کی ایک جماعت کا یہی مسلک ہے یعنی ان کے نزدیک شراب نوشی کا جرم منہ سے شراب کی بو آنے سے بھی ثابت ہو جاتا ہے لیکن حنفیہ اور شوافع دونوں کا مسلک یہ ہے کہ شراب نوشی کا جرم محض منہ سے شراب کی بو آنے سے ثابت نہیں ہوتا اور نہ کسی ایسے شخص پر شراب کی حد جاری کی جا سکتی ہے جس کے منہ سے شراب کی بو آ رہی ہو اور اس کے علاوہ اس کی شراب نوشی کا اور کوئی ثبوت نہ ہو کیونکہ بسا اوقات ترش سیب اور امرود کی بو بعض شراب کی بو کے مشابہ ہوتی ہے۔
جہاں تک حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس واقعہ کا تعلق ہے اس کے بارہ میں ان حضرات کی طرف سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے خود شراب نوشی کا اقرار کیا ہو گا یا اس کی شراب نوشی پر گواہ قائم ہو گئے ہوں گے اس وجہ سے انہوں نے حد جاری کی۔

یہ حدیث شیئر کریں