مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ اختلافات قرأت ولغات اور قرآن جمع کرنے کا بیان ۔ حدیث 740

حضرت عثمان کے ذریعہ قرآن کی ترتیب وجمع

راوی:

وعن أنس بن مالك : أن حذيفة بن اليمان قدم على عثمان وكان يغازي أهل الشأم في فتح إرمينية وأذربيجان مع أهل العراق فأفزع حذيفة اختلافهم في القراءة فقال حذيفة لعثمان يا أمير المؤمنين أدرك هذه الأمة قبل أن يختلفوا في الكتاب اختلاف اليهود والنصارى فأرسل عثمان إلى حفصة أن أرسلي إلينا بالصحف ننسخها في المصاحف ثم نردها إليك فأرسلت بها حفصة إلى عثمان فأمر زيد بن ثابت وعبدالله بن الزبير وسعيد بن العاص وعبدالرحمن بن الحارث بن هشام فنسخوها في المصاحف وقال عثمان للرهط القرشيين الثلاث إذا اختلفتم في شيء من القرآن فاكتبوه بلسان قريش فإنما نزل بلسانهم ففعلوا حتى إذا نسخوا الصحف في المصاحف رد عثمان الصحف إلى حفصة وأرسل إلى كل أفق بمصحف مما نسخوا وأمر بما سواه من القرآن في كل صحيفة أو مصحف أن يحرق قال ابن شهاب وأخبرني خارجة بن زيد بن ثابت سمع زيد بن ثابت قال فقدت آية من الأحزاب حين نسخنا المصحف قد كنت أسمع رسول الله صلى الله عليه و سلم يقرأ بها فالتمسناها فوجدناها مع خزيمة بن ثابت الأنصاري ( من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه )
فألحقناها في سورتها في المصحف . رواه البخاري

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان حضرت عثمان غنی
( رضی اللہ عنہما) کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام عراق کے آرمینیہ اور آذر بائیجان کی جنگوں کی غرض سے سامان جہاد کی فراہمی اور تیاری میں مصروف تھے حذیفہ کی قرأت کے بارے میں لوگوں کے اختلاف نے اضطراب میں اور خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ لوگ بے محابا آپس میں ایک دوسرے کی قرأت کا انکار کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ امیرالمومنین اس امت کے بارہ میں تدارک کی کوئی راہ نکالئے قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کلام اللہ میں اختلاف کرنے لگیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی بات سن کر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ وہ صحیفے جو حضرت ابوبکر نے جمع کئے تھے ہمارے پاس بھیج دیجئے ہم ان کو نقل کرا کر یہ مصاحف آپ کے پاس بھیج دیں گے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وہ تمام صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دیئے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انصار میں سے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور قریش میں عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاس اور عبداللہ بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو ان صحیفوں کو نقل کرنے پر مامور کیا چنانچہ ان سب ان صحیفوں کو مصاحف میں نقل کیا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریش کے تینوں حضرات سے فرمایا کہ اگر قرآن کے لغات میں کسی جگہ تم میں اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اختلاف ہو جائے تو وہاں لغت قریش کے مطابق لکھو کیونکہ کلام اللہ لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا ہے چنانچہ ان سب نے اس پر عمل کیا اور جب مصاحف میں صحیفے نقل کئے جا چکے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان صحیفوں کو تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیج دیا اور ان مصاحف میں جو نقل کئے تھے ایک ایک مصحف (اسلامی مملکت میں ) ہر جگہ بھیج دیا اس کے ساتھ ہی یہ حکم جاری فرمایا کہ ان مصاحف کے علاوہ ہر اس مصحف یا صحیفے کو جلا دیا جائے جس میں قرآن لکھا ہوا ہے۔
حدیث کے ایک راوی حضرت ابن شہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے خارجہ نے مجھے بتایا کہ میں نے اپنے والد حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس وقت کہ ہم (یعنی میں اور دونوں قریشی صحابہ سعید بن عاص اور عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ) قرآن کریم (مصحف عثمانی میں) نقل کر رہے تھے مجھے سورت احزاب کی ایک آیت نہیں مل رہی تھی ۔ حالانکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا کرتا تھا۔ چنانچہ تلاش وجستجو کے بعد مجھے یہ آیت حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے لکھی ہوئی ملی۔ اور وہ آیت یہ ہے ۔ (مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ) 33۔ الاحزاب : 23)۔ پھر میں نے یہ آیت مصحف میں اس کی سورت یعنی سورت احزاب کے ساتھ ملا دی۔ (بخاری)

تشریح
کرمانی رحمہ اللہ نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ لفظ یغازی معنی کے اعتبار سے یغزی کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے گویا اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ : کان عثمان یجہز اہل الشام واہل العراق لغزوۃ ہاتین الناحیتین وفتحہما۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دنوں اہل شام و اہل عراق کے لئے ان دونوں ملکوں کی جنگ اور ان کی فتح کی غرض سے سامان جہاد کی فراہمی میں مصروف تھے۔
لہٰذا حدیث میں اس لفظ کا ترجمہ بھی اسی وضاحت کے مطابق کیا گیا ہے ۔ نیز کرمانی نے یہ بھی لکھا ہے کہ آرمینیہ نواح روم (بیز نطین) میں ایک علاقہ کا نام تھا اور آذربائیجان تبریز کے علاقوں میں سے ایک علاقہ تھا۔
ملا علی قاری اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے " کان" کا اسم اور " یغازی" فاعل حذیفہ کو لکھا ہے نیز ملا علی قاری نے قاموس کے حوالہ سے بھی لکھا ہے کہ آرمینیہ اور آذربائیجان کا ایک علاقہ تھا لہٰذا اس طرح حدیث میں آذربائیجان تعمیم بعد تخصیص کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کلام اللہ میں اختلاف کرنے لگیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہود و نصاریٰ نے توریت و انجیل میں تغیر تبدل کیا اور اس طرح اپنی خواہشات کے مطابق کلام اللہ میں کمی و زیادتی کی کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان بھی ایسا ہی کرنے لگیں ۔ اور وہ اس فتنہ میں مبتلا ہو جائیں اس لئے اس فتنہ کے برپا ہونے سے پہلے ہی آپ کچھ تدبیر کیجئے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو اس اہم مسئلہ پر غور کرنے کے لئے لوگوں کو جمع کیا جن کی تعداد اس وقت پچاس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن پڑھنے والوں میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے سے یہ کہتے ہیں کہ میری قرأت تمہاری قرأت سے بہتر ہے۔ یعنی وہ ایک دوسرے کی قرأت سے اختلاف کرتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا کفر کے بالکل قریب ہے! لوگوں نے عرض کیا کہ پھر آپ کی کیا رائے ہے اور اس کے سدباب کے لئے آپ کیا چیز مناسب سمجھتے ہیں؟ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ تمام لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دوں تاکہ کوئی اختلاف ہی پیدا نہ ہو، لوگوں نے کہا کہ جس چیز کو آپ مناسب سمجھتے ہیں وہ بہت بہتر ہے اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ارادہ کیا کہ لوگوں کو ایک مصحفہ پر جمع کریں گے۔ چنانچہ حدیث میں فارسل عثمان الخ (حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس پیغام بھیجا) سے اسی بات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
کلام اللہ لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا ہے یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ اصل میں تو قرآن کریم لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا تھا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درخواست پر اس بات میں وسعت و فراخی عطا فرمائی گئی یعنی یہ اجازت دے دی گئی کہ ہر شخص اپنی لغت کے مطابق پڑھ سکتا ہے۔ اب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ دیکھا کہ یہ اختلاف لغت امت میں ایک زبردست انتشار اور دین میں ایک بڑے فتنہ کا باعث ہو رہا ہے تو انہوں نے حکم دیا کہ لغت قریش کے علاوہ اور تمام لغات منسوخ کر دی جائیں اور سب لوگ قرآن کریم لغت قریش کے مطابق پڑھیں چنانچہ حدیث میں مذکور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ فاکتبوا بلسان قریش کا یہی مطلب ہے۔
سخاوی نے مصحف عثمانی میں قرآن کریم نقل کرتے وقت مذکورہ ناقلین کے درمیان واقع ہونے والے کچھ اختلافات کو بیان بھی کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک موقع پر لفظ " تابوت" کے بارہ میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو کہا کہ اسے " التابوہ" لکھا جائے مگر دوسرے حضرات کا کہنا تھا کہ التابوت لکھنا چاہئے ۔ اس کے بعد ان لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کو " ت" کے ساتھ لکھو یعنی التابوت ہی لکھو۔ کیونکہ لغت قریش میں یہ لفظ یوں ہی ہے۔ اسی طرح اس موقع پر ان لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لم یتسن کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس میں " ہ" لکھو ۔
اس مصحف کے علاوہ ہر اس صحیفہ یا مصحف کو جلا دیا جائے الخ۔ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ہر صحیفہ سے مراد تو وہ صحیفے ہیں۔ جو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھے اور مصحف سے مراد وہ صحیفے ہیں جو دیگر لوگوں نے جمع کئے تھے اور وہ ان کے پاس تھے تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ اس جملہ فی کل صحیفۃ او مصحف میں لفظ" او" راوی کے شک کے اظہار کے لئے ہو۔
حدیث کے ظاہری مفہوم میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جو صحیفے تھے انہیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایفاء وعدہ کے پیش نظر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس بھیج دیا تھا مگر پھر انہیں بھی دوبارہ حاصل کر کے جلا ڈالا تھا۔ لیکن سخاوی نے اس بارے میں تفصیل لکھی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مصحف عثمانی کی تکمیل سے فارغ ہوئے تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ان کے صحیفے واپس بھجوا دئیے ان صحیفوں اور اپنے مصحف کے علاوہ بقیہ تمام صحیفے انہوں نے نذر آتش کرا دئیے چنانچہ وہ صحیفے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس رہے جب مروان مدینہ کا حاکم ہوا تو اس نے وہ صحیفے جلانے کے لئے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منگوا بھیجے مگر انہوں نے دینے سے انکار کر دیا ۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعد مروان نے وہ صحیفے ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منگا کر اس خوف سے جلا دئیے کہ یہ صحیفے اگر کبھی باہر آ گئے اور لوگوں نے دیکھا تو پھر اختلاف کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مصحف تیار کر کے اطراف عالم میں بھیجے تھے ان کی تعداد کے بارہ میں مختلف اقوال منقول ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ ان مصاحف کی تعداد پانچ تھی۔ لیکن ابوداؤد رحمہ اللہ تعالی علیہ کہ میں نے ابوحاتم سجستانی سے سنا کہ ان کی تعداد سات تھی۔ ان میں سے ایک مکہ بھیجا گیا (ایک شام ایک یمن ایک بحرین ایک بصرہ ایک کوفہ اور ایک مدینہ میں رکھا گیا۔

یہ حدیث شیئر کریں