مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان ۔ حدیث 76

آرزوئے موت اور موت کو یادر کھنے کی فضیلت کا بیان

راوی:

وعن جابر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " الفار من الطاعون كالفار من الزحف والصابر فيه له أجر شهيد " . رواه أحمد

جسمانی تکلیف و مصیبت اور دنیاوی ضرر نقصان مثلاً مرض، تنگدستی اور دوسری بلاء و پریشانیوں کی وجہ سے موت کی آرزو کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ بے صبری اور تقدیر الٰہی پر راضی نہ ہونے کی علامت ہے۔
دیدار الٰہی کے شوق و محبت، اس سرائے فانی اور اس کی محبت سے نجات، دارالبقاء پہنچنے کی خواہش اور وہاں کی نعمتوں کی تمنا میں موت کی آرزو ایمان اور کمال ایمان کی نشانی ہے۔ اسی طرح دینی ضرر و نقصان کے خوف سے بھی موت کی آرزو کرنا مکروہ نہیں ہے۔
" موت کو یاد رکھنا " دراصل کنایہ ہے اس بات سے کہ اللہ رب العز کا خوف قلب میں جاگزین ہو اس کی رضاء و خوشنودی کا حصول اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہمہ وقت پیش نظر ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور ان کی لائی ہوئی شریعت پر عمل ہو، توبہ و استغفار کا ورد ہو اور دنیا وی نفع نقصان پر آخرت کے نفع و نقصان کو مقدم رکھا جائے۔ ورنہ تو محض موت کو یاد رکھنا اور یاد کرنا اور عملی طور پر بے راہ روی اختیار کرنا چنداں فائدہ مند نہیں ہے بلکہ قساوت قلب کا سبب ہے جیسا کہ غفلت کے ساتھ اللہ رب العزت کو یاد کرنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ نسأل اللہ العافیۃ۔

یہ حدیث شیئر کریں