مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان ۔ حدیث 81

مؤمن کی موت خود اس کی راحت کا ذریعہ ہے اور فاجر کی موت دنیا والوں کی راحت کا سبب ہے

راوی:

وفي رواية عائشة : " والموت قبل لقاء الله "

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک جنازہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ 'یہ راحت پانے والا ہے، یا یہ کہ اس سے دوسروں کو راحت نصیب ہوئی؟" صحابہ نے عرض کیا کہ راحت پانے والا کون ہے؟ اور وہ کون ہے جس سے دوسروں کو راحت نصیب ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا " بندہ مؤمن اپنی موت کے ذریعہ دنیا کے رنج و ایذاء سے راحت پاتا ہے اور اللہ کی رحمت کی طرف جاتا ہے اور بندہ فاجر (یعنی گنہگار) کی موت کے ذریعہ اس کے شر فساد سے بندے، شہر، درخت اور جانور (سب ہی) راحت پاتے ہیں" (بخاری و مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جب بندہ مؤمن وفات پاتا ہے تو وہ دنیا کے رنج سے بایں طور راحت پاتا ہے کہ دنیا میں اعمال و احوال کی وجہ سے وہ جس مشقت و محنت میں مبتلا تھا اس سے نجات مل جاتی ہے اور دنیا کی ایذاء سے بایں طور راحت پاتا ہے کہ وہ دنیاوی تکلیف و پریشانی مثلاً گرمی سردی، تنگدستی و مفلسی وغیرہ سے یا یہ کہ اہل دنیا کی ایذاء رسانی سے اسے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ اسی لئے مسروق رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مجھے کسی چیز پر بھی کسی چیز کے سبب اتنا رشک نہیں آتا جتنا رشک اس مؤمن پر آتا ہے جو قبر میں سلا دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے عذاب سے مامون ہو جاتا ہے اور دنیا سے راحت و سکون پا لیتا ہے۔ نیز ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے رب کے پاس جانے کے شوق میں موت کو پسند کرتا ہوں۔ گناہ کے کفارہ کے لئے مرض کو پسند کرتا ہوں ۔ اور اپنے رب کے سامنے تواضع و انکساری کی خاطر فقر کو پسند کرتا ہوں۔
جب بندہ فاجر یعنی گنہگار مرتا ہے تو اس سے بندے تو یوں راحت پاتے ہیں کہ جب وہ اپنی زندگی میں خلاف شرع باتیں کرتا اور لوگ اسے منع کرتے تو وہ انہیں ایذاء پہنچاتا اور اگر سکوت و خاموشی اختیار کرتے تو اپنے دین اور اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتے۔ اور جب وہ گنہگار مر گیا تو لوگوں نے اس سے چھٹکارا پایا۔ اور شہر و درخت وغیرہ اس کے مرنے سے بایں طور راحت پاتے ہیں کہ گناہ و ظلم ہونے کی وجہ سے عالم میں فساد پیدا ہو جاتا ہے۔ ارکان دین میں خلل واقع ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ گنہگار و ظالم کو مبغوض رکھتا ہے لہٰذا اس کی وجہ سے زمین اور وہ تمام چیزیں جو زمین میں ہیں نقصان اٹھاتی ہیں پھر یہ کہ اس کی شومی گناہ کے سبب اللہ تعالیٰ بارش نہیں برساتا، اب جب کہ مرا تو بادلوں نے اپنے منہ کھول دیئے اور زمین کا شجر و پودا ہرا بھرا ہو گیا اور اس طرح سب ہی نے راحت پائی۔

یہ حدیث شیئر کریں