مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں کا بیان ۔ حدیث 812

اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام اور ان کی تفصیل ووضاحت

راوی:

" العظیم" ذات پاک میں فہم و شعور کی رسائی سے بھی زیادہ بزرگ وبرتر۔ یعنی اپنی ذات وصفات کے اعتبار سے اس کی بزرگی و بڑائی اور عظمت اتنی زیادہ ہے کہ انسان کی عقل اور اس کی فہم وشعور اس کی عظمت وبڑائی کا ادراک بھی نہیں کر سکتا ۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ عظمت الٰہی کے آگے کونین کو بھی حقیر جانے، دنیا کے لئے کسی کے آگے اپنا سر نہ جھکائے ۔ اپنے نفس کو حقیر جانے اور اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو کرنے کا حکم کیا ہے ان کو اختیار کر کے اور جن چیزوں سے بچنے کا حکم کیا ہے ان سے اجتناب کرے اور جو چیزیں اللہ کو محبوب ہیں ان میں مشغول رہ کر اپنے نفس کو ذلیل کرے۔ تاکہ اللہ کی رضا وخوشنودی حاصل ہو۔
خاصیت
جو شخص اس اسم پاک کو پڑھنے پر مداومت وہمیشگی اختیار کرے وہ مخلوق اللہ کی نظروں میں عزیز ومکرم ہو گا۔
" الغفور" ۔ بہت بخشنے والا۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ رات و دن کے اکثر اوقات میں خصوصا سحر کے وقت استغفار کو اپنے اوپر لازم کرے اور اس شخص کو بخشش ومعافی دے جو اسے تکلیف وایذاء پہنچائے۔
خاصیت
جس شخص کو کوئی بیماری ہو مثلاً بخار اور درد سر وغیرہ یا کوئی رنج وغم اس پر غالب ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس اسم پاک کو کاغذ پر لکھے اور اس کے نقش کو روٹی پر جذب کر کے اسے کھا لے حق تعالیٰ اسے شفا ونجات عطا فرمائے گا اور اگر کوئی شخص اس کو بہت پڑھتا رہے اس کے دل کی ظلمت جاتی رہے گی۔
ایک حدیث میں منقول ہے کہ جو شخص سجدہ کرے اور سجدہ میں یا رب اغفر لی اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے۔ تین مرتبہ کہے حق تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا۔ جس شخص کو درد سر کا عارضہ لاحق ہو یا کسی اور بیماری اور غم میں مبتلا ہو تو اسے چاہئے کہ یا غفور کے مقطعات تین مرتبہ لکھ کر کھا لے انشاء اللہ شفا پائے گا۔
" الشکور" قدر دان، اور تھوڑے سے عمل پر بہت زیادہ ثواب دینے والا۔ منقول ہے کہ کسی شخص کو جو مر چکا تھا خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ حق تعالیٰ نے کیسا معاملہ ؟ اس شخص نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھ سے حساب کیا تو میری نیکیوں کا پلڑا اٹھ گیا۔ اور گناہوں کا پلڑا غالب ہو گیا کہ اچانک نیکیوں کے پلڑے میں ایک تھیلی آ کر پڑی جس سے وہ پلڑا جھک گیا۔ جب میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو مجھے بتایا گیا کہ یہ ایک مٹھی بھر مٹی ہے جو تونے اپنے ایک مسلمان بھائی کی قبر میں ڈالی تھی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کا فضل وکرم کتنے معمولی عمل پر بھی بندہ کو بے انتہا ثواب و رحمت سے نوازتا ہے اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے بایں طور کہ تمام نعمتوں کو اسی کی عطا جان کر اپنے ہر عضو کو اسی کام میں مشغول رکھے جس کے لئے حق تعالیٰ نے اسے پیدا کیا لے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے اور ان کا شکر ادا کرتا رہے ۔ کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ حدیث ( لایشکر اللہ من لایشکرالناس )۔ وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا جو لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا۔
خاصیت
جس شخص کی معیشت تنگ ہو یا اس کی آنکھ کی روشنی اور قلب کے نور میں کمی پیدا ہو گئی ہو تو وہ اس اسم پاک کو اکتالیس بار پانی پر پڑھ کر پیئے اور آنکھوں پر ملے انشاء اللہ تونگری حاصل ہوگی اور شفا پائے گا۔
" العلی" بلند مرتبہ۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اللہ کی ظاہری اور باطنی طاعات اور عبادات کے ذریعہ اپنے نفس کو ذلیل کرے اور اپنی تمام تر توانائی علم وعمل کے حصول میں صرف کرے یہاں تک کہ وہ انتہائی کمالات اور مراتب عالی کو پہنچے ۔ حدیث شریف میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ اعلی امور کو پسند کرتا (کیونکہ اس کی وجہ سے بندہ اعلیٰ مراتب اور بلند درجات کو پہنچتا ہے ) اور ادنیٰ امور کو ناپسند کرتا ہے اسی لئے حضرت علی کرام اللہ وجہہ کا یہ مقولہ ہے کہ علو ہمتی ایمان ہی سے پیدا ہوتی ہے۔
خاصیت
جو شخص اس اسم پاک پر مداومت کرے یا اس کو لکھ پر اپنے پاس رکھے تو اگر وہ کمتر اور بے قدر ہو تو بزرگ وبلند مرتبہ ہو جائے گا فقر و افلاس میں مبتلا ہو تو تونگری حاصل ہو گی اگر سفر کی صعوبتوں میں مبتلا ہو تو وطن مالوف لوٹنا نصیب ہو گا۔
" الکبیر" بڑا اور ایسا بڑا کہ اس کی بڑائی میں کوئی اس کا ہمسفر نہیں ۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اس کی بڑائی کو ہمیشہ یاد رکھے یہاں تک کہ اس کے ماسوا کی بڑائی کو بالکل فراموش کر دے علم وعمل کے حصول کے ذریعہ اپنے نفس کو کامل بنانے کی کوشش کرے تاکہ اس کے کمال اور اس کے فیض سے دوسرے مستفید ہوں۔ تواضع وانکساری اختیار کرنے میں مبالغہ کرے اور خدمت مولیٰ کو اپنے اوپر لازم قرار دے کر بے اعتنائی او بے ادبی سے احتراز کرے۔
خاصیت
اس اسم پاک کو بہت زیادہ پڑھنے والا بزرگ مرتبہ اور عالی قدر ہوتا ہے اور اگر حکام و فرمانروا اس اسم پاک پر مداومت کریں تو لوگوں پر ان کو خوف ودبدہ غالب ہو اور ان کے تمام امور بحسن خوبی انجان پائیں۔
" الحفیظ" ۔ عالم کو آفات ونقصانات سے محفوظ رکھنے والا۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اپنے اعضاء کو گناہوں سے اور باطن کو ملاحظہ اغیار سے محفوظ رکھے اور اپنے تمام امور میں اللہ کے فیصلوں اور اس کی مشیت پر اکتفا کرے اور اس کی قضا وقدر پر راضی ہو ۔ ایک بزرگ کا یہ قول منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس شخص کے اعضاء محفوظ رکھے اس کا دل محفوظ رکھا اور جس کا دل محفوظ رکھا اس کے بھیدوں کو محفوظ کیا۔
منقول ہے کہ ایک دن اتفاق سے ایک بزرگ وصالح کی نظر کسی ممنوع چیز پر پڑ گئی فورا وہ بارگاہ الٰہی میں عرض رساں ہوئے الہ العالمین! مجھے اپنی بینائی کی بقاء کی صرف اسی لئے تمنا تھی تاکہ تیری عبادت میں کام آئے اب جب کہ تیرے حکم کی مخالفت کا سبب بن گئی ہے تو پروردگار! اسے مجھ سے چھین لے۔ چنانچہ ان کی بینائی جاتی رہی اور وہ اندھے ہو گئے وہ رات میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ بینائی جانے کے بعد رات میں انہیں پریشانی ہوئی یہاں تک کہ وہ طہارت اور وضو کے لئے پانی لینے سے بھی محتاج ہو گئے اب جب پانی ان کے ہاتھ نہ لگا اور نماز وعبادت میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو پھر اللہ کے حضور عرض کیا پروردگار! میں نے خود ہی کہا تھا کہ میری بینائی مجھ سے چھین لے لیکن اب رات میں تیری عبادت کے لئے مجھے اس کی ضرورت ہے اس کے بعد اللہ نے ان کی بینائی واپس کر دی اور وہ ٹھیک ہو گئے۔
خاصیت
اگر کوئی شخص اس اسم پاک کو لکھ کر اپنے دائیں بازو پر باندھ لے تو وہ ڈوبنے ، جلنے، آسیب اور نظر بد وغیرہ سے محفوظ رہے گا۔
" المقیت" بدن و روح کے لئے قوت (غذا) پیدا کرنے والا اور انہیں قوت دینے والا۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ جب اس نے یہ جان لیا کہ وہی قوت پیدا کرنے والا ہے اور قوت دینے والا ہے تو اب اسے چاہئے کہ وہ اس کے ذکر (یعنی یاد الٰہی ) کے سامنے اپنے قوت کا ذکر (یعنی اپنی غذا کا فکر) بھول جائے کیونکہ حقیقی قوت تو اسی کا ذکر اور اسی کی یاد ہے جیسا کہ حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ان سے جب قوت کے بارہ میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ حی الذی لایموت (ایسا زندہ جو نہیں مرتا) کا ذکر ہے۔ نیز بندہ کو چاہئے کہ وہ قوت اور قوت اپنے مولیٰ کے علاوہ اور کسی سے نہ مانگے ارشاد ربانی ہے۔ آیت (وان من چیز الا عندناخزائنہ وماننزلہ الا بقدر معلوم)۔ ایسی کوئی چیز نہیں ہے ہمارے پاس جس کے خزانے نہ ہوں اور ہم اسے اپنے اندازہ مقرر کے مطابق ہی اتارتے ہیں۔ نیز بندہ کو چاہئے کہ وہ اپنے ہر متعلق کو قوت دے جس کا وہ مستحق ہے تاکہ دوسروں کو نفع پہنچانا گمراہوں کی ہدایت کرنا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا اس کا طرہ بن جائے۔
قشیری فرماتے ہیں کہ قوت مختلف نوع کے ہوتے ہیں ایک تو یہی ظاہری غذا اور خوراک کہ جس پر انسان کی زندگی کا مدار سمجھا جاتا ہے لیکن بعض بندے تو ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عبادات کی توفیق کو ان کے نفس کا قوت، مکاشفات کے صدور کو ان کے دل کا قوت اور مداومت مشاہدات کو ان کی روح کا قوت بنا دیتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی نیک بندہ کو اپنی طاعت وعبادات میں مشغول کرتا ہے اور طرح کہ وہ اپنی خواہشات نفس سے بالکل قطع نظر کر کے پورے حضور اور صدق واخلاص کے ساتھ صرف اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کسی ایسے شخص کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کی خبر گیری اور خدمت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ اس کی ضروریات زندگی خود بخود پوری ہوتی رہتی ہیں لیکن جب کوئی بندہ اپنی خواہشات نفس کی تکمیل کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کی تکمیل کو اسی کے بل بوتہ پر چھوڑ دیتا ہے اور اس کے اوپر سے اپنی عنایت ومدد کا سایہ اٹھا لیتا ہے۔
خاصیت
اگر کوئی شخص کسی کو غربت زدہ دیکھے یا خود غربت میں مبتلا ہو ، یا کوئی بچہ اپنی بدخوئی سے باز نہ آتا ہو یا بہت روتا ہو تو کسی خالی پیالہ وغیرہ پر سات بار اس اسم پاک کو پڑھ کر دم کرے اور پھر اس پیالہ میں پانی ڈال کر پی لے یا جس کو ضرورت ہو اسے پلا دے۔ اسی طرح اگر کسی روزہ دار کو ہلاکت کا خوف ہو تو وہ اس اسم پاک کو کسی پھول پر پڑھ کر سونگھے انشاء اللہ اسے قوت وتقویت حاصل ہو گی اور روزے رکھنے کے قابل ہو جائے گا۔
" الحسیب" ہر حال میں کفایت کرنے والا یا قیامت کے دن حساب لینے والا۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ محتاجوں کو کفایت کرنے والا یعنی ان کی حاجتوں کو پورا کرنے والا ہو اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے ۔
قشیری نے اس موقع پر جو بات کہی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ بندوں کو اللہ کا کفایت کرنا یہ ہے کہ وہ اس کے ہر حال میں اور ہر کام میں مددگار ہوتا ہے اور اس کا ہر کام پورا ہوتا ہے لہٰذا جب بندہ نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ میرے لئے کافی اور میری ہر مراد اور میرے ہر کام کو پورا کرنے والا ہے تو اب اس کو چاہئے کہ وہ کسی بھی دنیاوی سہارے پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اگر اسے اپنے مقصد کے حصول میں کسی بھی دنیاوی سہارے سے بوقت ضرورت فائدہ نہ پہنچے جب کہ اسے اس سہارے پر اعتماد بھی رہا ہو تو اس سے بد دل اور پریشان خاطر نہ ہو بلکہ یہ یقین رکھے کہ اللہ نے میرے مقدر میں جو طے فرما دیا ہے بہر صورت وہی ہو گا اگر قسمت میں حصول مقصد لکھا جا چکا ہے تو وہ ضرور حاصل ہو گا چاہے وہ دنیاوی سہارا کتنا ہی مایوس کن کیوں نہ ہو اور اگر قمست میں مقصد کا حصول نہیں لکھا ہے تو وہ حاصل نہیں ہو گا چاہے وہ دنیاوی سہارا کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لے اور پھر یہ کہ جو شخص اللہ کی طرف سے پیش آنے والی چیز پر جو کہ اگرچہ اس کا مطلب نہیں ہے اکتفا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو اس چیز پر راضی ومطمئن کر دے گا جو اس نے اس شخص کے لئے طے فرما دی ہوگی چنانچہ اس کا اثر یہ ہو گا کہ ایسا بندہ اپنے اسی وصف (یعنی راضی برضاء ہو جانے کی) بناء پر اپنے مطلوب کے عدم حصول کو اس کے حصول کے مقابلہ میں فقر کو غنا کے مقابلہ میں برضا و رغبت اختیار و قبول کرے گا اور بسبب مشاہدہ وتصرف مولیٰ حصول مقصد کے اسباب و ذرائع مہیا نہ ہونے ہی پر مطمئن ہو جائے گا۔
خاصیت
جو شخص کسی چور یا حاسد یا ہمسایہ بد اور دشمن کے شر سے ڈرتا ہو یا چشم زخم سے پریشان ہو تو وہ ایک ہفتہ تک ہر صبح وشام ستر بار حسبی اللہ الحسیب (کفایت کرنے والا اللہ میرے لئے کافی ہے) پڑھ لیا کرے اللہ تعالیٰ اسے ان چیزوں کے شر اور پریشانی سے محفوظ رکھے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں