مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں کا بیان ۔ حدیث 816

اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام اور ان کی تفصیل ووضاحت

راوی:

" المغنی" جس کو چاہے بے پروا کرنے والا۔
ان ناموں سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ ماسو اللہ سے مکمل استغناء اور بے پرواہی برتے اور اللہ کے علاوہ کسی کو حاجت روا قرار نہ دے۔
خاصیت
جو شخص مسلسل دس جمعہ تک اس اسم پاک کو پڑھنے میں باقاعدگی اختیار کرے بایں طور کہ ہر جمعہ کے روز ایک ہزار بار پڑھے تو مخلوق سے بے پروا ہو جائے گا۔
" المانع" اپنے بندوں کو دین ودنیا کی ہلاکت ونقصان سے باز رکھنے والا۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ اپنے نفس اور اپنی طبیعت کو خواہشات نفسانی سے باز رکھ کر اپنے آپ کو دینی ودنیاوی ہلاکت ونقصان سے محفوظ رکھے۔
خاصیت
اگر شوہر بیوی کے درمیان ناچاقی ہو تو بستر پر جاتے وقت اس اسم پاک کو بیس بار پڑھ لیا جائے تاکہ حق تعالیٰ غصہ وناچاقی کی بدمزگی سے بچائے گا۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح اسماء حسنی میں اس پاک المانع سے پہلے اس پاک المعطی بھی نقل کیا ہے اور انہوں نے ان دونوں ناموں کی ترجمانی کی وضاحت یوں کی ہے کہ وہ جس کو جو کچھ چاہے دے اور جو چاہے نہ دے۔ لامانع لما اعطی ولا معطی لما منع (جان لو جس کو وہ دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو نہ دے اس کو کوئی دینے والا نہیں) لہٰذا جب بندہ نے جان لیا کہ حق تعالیٰ ہی معطی دینے والا اور مانع نہ دینے والا ہے تو اس کی عطا کا امیدوار اور اس کے منع سے خائف رہے! بندہ پر اس اسم کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندوں اور مستحقین کو اپنے عطا سے نوازے اور فاسقوں ظالموں کو عطا کرنے سے باز رہے یا یہ کہ اپنے قلب وروح کو حضور طاعت کے انوار عطا کرے اور اپنے نفس وطبیعت کو خواہشات و ہوس سے باز رکھے! حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں جو یہاں ذکر کی گئی ہے المعطی کا ذکر نہیں ہے ۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کے پیش نظر منع کی وضاحت رد و ہلاک کی جاتی ہے۔
اس کے بعد حضرت شیخ اس پاک المعطی کی خاصیت یہ لکھتے ہیں کہ جو شخص المعطی کو اپنا ورد بنا لے اور یا معطی السائلین بہت پڑھتا رہا کرے تو کسی سے سوال کا محتاج نہیں ہو گا۔
" الضار ۔ النافع" جس کو چاہے ضرر پہنچانے والا اور جس کو چاہے نفع پہنچانے والا۔ قشیری کہتے ہیں کہ ان اسماء میں اس طرف اشارہ ہے کہ ضرر و نفع اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے ہے لہٰذا جو شخص اس کے حکم یعنی اس کی قضا وقدر کا تابعدار ہو وہ راحت وسکون کی زندگی پائے گا اور جو شخص اس کا تابعدار نہ ہو وہ آفت ومصیبت میں پڑے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ من استسلم لقضائی وصبر علی بلائی وشکر علی نعمائی کان عبدی حقا ومن لم یستسلم لقضائی ولم یصبر علی بلائی ولم یشکر علی نعمائی فلیطلب ربا سوائی۔ جس شخص نے میری قضا وقدر کو تسلیم کیا میری بلا پر صبر کیا ور میری نعمتوں پر شکر کیا وہ میرا سچا بندہ ہے اور جس شخص نے میری قضا وقدر کو تسلیم نہ کیا۔ میری بلاء پر صبر نہ کیا اور میری نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا تو وہ میرے علاوہ کوئی اور رب ڈھونڈ لے۔
حضرت شیخ نے شرح اسماء حسنی میں ان دونوں اسماء الضار اور النافع کی وضاحت کے سلسلے میں یہ لکھا ہے کہ خیر وشر اور نفع وضرر کا صرف اللہ تعالیٰ مالک ہے اور گرمی سردی خشکی اور تری میں درد و تکلیف، رنج وپریشانی اور شفا کا پیدا کرنے والا وہی ہے۔ یہ قطعا گمان نہ کیا جائے کہ دوا بذات خود فائدہ دیتی ہے زہر بذات خود ہلاک کرتا ہے کھانا بذات خود سیر کرتا ہے اور پانی بذات خود سیراب کرتا ہے بلکہ یہ تمام اسباب عادی ہیں بایں معنی ٰ کہ یہ عادت قائم کہ حق تعالیٰ نے ان کو اسباب بنا دیا ہے کہ مذکورہ بالا چیزیں ان کے واسطہ سے پیدا کرتا ہے اگر وہ چاہے تو ان چیزوں کو ان واسطوں اور اسباب کے بغیر بھی پیدا کر سکتا ہے اور اگر چاہے تو ان کے باوجود بھی ان چیزوں کو پیدا نہ ہونے دے۔ اسی طرح عالم علویات وسفلیات کی تمام چیزیں اور تمام اجزا محض واسطے اور اس باب کے درجہ میں ہوتی ہیں حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے زیر اثر ہیں اور ان تمام کی حیثیت بہ نسبت قدرت ازلیہ وہی ہے جو لکھنے والے کے ہاتھ میں قلم کی ہوتی ہے لہٰذا بندہ کو چاہئے کہ تمام نقصانات اور تمام فائدہ کو حق تعالیٰ کے فیصلے جانے، عالم اسباب کو اس قدرت کے زیر اثر سمجھے اور حکم وقضا الٰہی کا تابعدار ہو کر اپنے تمام امور اسی کے سپرد کرے تاکہ وہ ایک ایسی زندگی کا حامل بن جائے جو مخلوق سے محفوظ اور مطمئن ہو۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دانتوں کے درد سے پریشان ہو کر بارگارہ حق میں فریاد کی تو وہاں سے حکم ہوا کہ فلاں گھاس دانتوں پر ملو تاکہ آرام ہو حضرت موسیٰ نے وہ گھاس دانتوں پر ملی تو آرام ہو گیا۔ ایک مدت کے بعد پھر ایک دانت میں درد ہوا تو انہوں نے وہی گھاس استعمال کی، اس مرتبہ درد کم تو کیا ہوتا اور بڑھ گیا بارگاہ حق میں عرض رساں ہوئے۔ الٰہ العالمین! یہ تو وہی گھاس ہے جس کو استعمال کرنے کا آپ نے حکم فرمایا تھا مگر اب اس کے استعمال سے درد اور بڑھ گیا ہے! بارگاہ حق سے عتاب کے ساتھ یہ ارشاد ہوا کہ اس مرتبہ تم نے ہماری طرف توجہ کی تھی تو ہم نے شفا دی اور اس مرتبہ تم نے گھاس کی طرف توجہ کی اس لئے ہم نے درد میں اضافہ کر دیا تاکہ تم یہ جان لو کہ شفا دیتے تو ہم ہی ہیں نہ کہ گھاس۔
بندہ پر ان اسماء کا تقاضہ یہ ہے کہا امر الٰہی اور حکم شریعت کے ذریعہ دشمنان دین کو ضرر پہنچائے اور انہیں متنبہ کرے اور بندگان اللہ کو نفع پہنچائے اور ان کی مدد کرتا رہے۔
خاصیت
اگر کسی شخص کو کوئی حال اور مقام میسر ہو تو وہ اسم پاک الضار کو جمعہ کی راتوں میں سو بار پڑھا کرے حق تعالیٰ اسے اس مقام پر استقامت عطا فرمائے گا اور وہ مرتبہ اہل قرب کو پہنچے گا۔ اگر کوئی شخص کشتی یا پانی کے جہاز میں سفر کرے تو وہ روزانہ اسم پاک النافع کو اکتالیس بار پڑھے انشاء اللہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور اپنے ہر کام کی ابتداء میں النافع اکتالیس بار پڑھ لیا کرے تو اس کے تمام کام حسب خواہش انجام پذیر ہوں گے۔
" النور" آسمان کو ستاروں کے ساتھ، زمین کو انبیاء وعلماء وغیرہ کے ذریعہ اور مسلمانوں کے قلوب کو نور معرفت وطاعت کے ذریعہ روشن کرنے والا۔ اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ ایمان وعرفان کے نور سے اپنی ذات کو روشن ومنور کرے۔
خاصیت
جو شخص جمعہ کی شب میں سورت نور ساتھ مرتبہ اور یہ اسم پاک ایک ہزار ایک مرتبہ پڑھے حق تعالیٰ اس کے دل میں نورانیت پیدا فرما دے گا اور جو شخص روزانہ صبح اس اسم پاک کو پڑھنے کا التزام رکھے تو اس کا دل منور ہو گا۔
" الہادی" راہ دکھانے ۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ بندگان اللہ کو اللہ کی راہ دکھائے۔ اس بات کو حضرت شیخ نے شرح اسماء حسنی میں وضاحت کے ساتھ یوں بیان کیا ہے۔ کہ ہدایت کا مطلب ہے راہ دکھانا اور منزل مقصود تک پہنچانا ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ تمام راہ رووں کا رہنما ہے۔ اگر کوئی دنیا کی راہ پر ہوتا ہے تب بھی رہنما ہے اور اگر کوئی آخرت کی راہ پر چلتا ہے تو بھی راہبر اسی کی ذات ہوتی ہے۔
گر نہ چراغ لطف تو راہ نماید از کرم
قافلہائے شب روں پے نبرد بمنزلے
حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ انواع ہدایت کی کوئی حد وشمار نہیں ہے۔ آیت (الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدا)۔ (وہ ایسی ذات ہے جس نے ہر چیز کو وجود بخشا اور پھر اس کی راہ بتائی) چنانچہ یہ حق تعالیٰ ہی ہے جو بچہ کو پیٹ سے باہر آتے ہی ماں کی چھاتیوں سے دودھ پینے کی راہ بتاتا ہے۔ چوزہ کو انڈے سے نکلتے ہی دانہ چننے کی راہ پر لگاتا ہے اور شہد کی مکھی کو کیا عجیب وغریب گھر بنانے کی راہ دکھاتا ہے، حاصل یہ ہے کہ کائنات کا ایک ایک فرد اپنے ایک ایک لمحہ اور اپنے ایک ایک فعل میں اسی کی ہدایت ورہنمائی کا مرہون منت ہوتا ہے۔
لیکن سب سے افضل اور سب سے عظیم الشان ہدایت وہ راستہ دکھانا ہے جو بارگاہ حق جل مجدہ تک اور دیدار باری تعالیٰ کی نعمت عظمی تک پہچاتا ہے اور خواص کے باطن میں توفیق الٰہی اور اسرار تحقیق کا وہ نور پیدا کرتا ہے جو ہدایت معرفت اور طاعت کا سبب بنتا ہے۔
بندوں میں اس اسم پاک الہادی سے سب سے زیادہ بہرہ مند انبیاء اولیاء اور علماء ہیں جو مخلوق اللہ کو صرط مستقیم کی طرف راہ دکھانے والے ہیں۔ سید انبیاء اور ختم رسل دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اس اسم پاک کی حقیقی پر تو ہے جو اس دنیا میں پوری انسانیت اور پوری کائنات کے سب سے بڑے اور سب سے بلند مرتبہ راہنما اور راہبر ہیں۔ آیت (اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولاالضالین )
حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کا عارفین کی صفات عالیہ میں شمار ہوتا ہے (١) تنگدل اور غمزدوں کو کشادگی اور فرحت کی طرف لانا۔ (٢) غافلین کو حق تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلانا۔ (٣) زبان تو حید سے مسلمانوں کو حق کی راہ دکھانا یعنی ان کے قلوب کی توجہ دنیا سے دین کی طرف اور معاش سے معاد کی طرف پھیرنا۔
خاصیت
جو شخص ہاتھ اٹھا کر اور اپنا منہ آسمان کی طرف اٹھا کر اس اسم پاک الہادی کو بہت زیادہ پڑھا کرے اور پھر ہاتھوں کو آنکھوں اور منہ پر پھیر لیا کرے تو حق تعالیٰ اسے اہل معرفت کا مرتبہ بخشے گا۔
" البدیع" عالم کو بغیر مثال کے پیدا کرنے والا۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جو شخص قول وفعل میں اپنے نفس پر سنت کو امیر (حاکم) بناتا ہے وہ حکمت کی باتیں کرتا ہے یعنی اس کا ذہن اس کی فکر اس کی زبان حکمت وشریعت ہی کے ڈھانچے میں ڈھل جاتی ہے اور جو شخص قول وفعل میں اپنے نفس پر خواہش کو امیر بناتا ہے وہ بدعت ہی کی باتیں کرتا ہے۔ اس کا ذہن اس کی فکر اور اس کی زبان بدعت ہی کے چکر میں پڑی رہتی ہے۔
قشیری فرماتے ہیں کہ ہمارے مسلک کے تین اصول ہیں (١) اخلاق وافعال میں اور کھانے پینے کہ وہ حلال ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنا۔ (٢) ہمیشہ سچ بولنا۔ (٣) تمام اعمال میں نیت کو خالص کرنا۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ جو شخص بدعتی کے بارہ میں مداہنت کرتا ہے یعنی اس سے نرمی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال سے سنت کی حلاوت اٹھا لیتا ہے اور جو شخص بدعتی کو دیکھ کر ہنستا ہے یعنی بدعتی کے ساتھ احترام کا معاملہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل سے ایمان کا نور سلب کر لیتا ہے۔
خاصیت
جس شخص پر کوئی غم پڑے یا کوئی دشوار کام پیش آئے تو وہ یابدیع السماوات والارض ستر ہزار بار اور ایک قول کے مطابق ایک ہزار بار پڑھے انشاء اللہ وہ غم دور ہو جائے گا اور اس کا کام پورا ہو گا اور اگر کوئی شخص باوضو ہو کر قبلہ کی طرف منہ کر کے یہ اتنا پڑھے کہ سو جائے تو وہ خواب میں جس چیز کے دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو گا دیکھ لے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں