مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان ۔ حدیث 82

دنیا میں مسافر بلکہ راہ گیر کی طرح رہو

راوی:

وعن أبي قتادة أنه كان يحدث أن رسول الله صلى الله عليه و سلم مر عليه بجنازة فقال : " مستريح أو مستراح منه " فقالوا : يا رسول الله ما المستريح والمستراح منه ؟ فقال : " العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا وأذاها إلى رحمة الله والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب "

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (پہلے تو) میرا مونڈھا پکڑا (تاکہ میں متنبہ ہو جاؤں) پھر فرمایا " تم دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم مسافر بلکہ راہ گیر ہو" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اس کے بعد لوگوں سے) فرمایا کرتے تھے کہ جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو، نیز اپنی صحت کو بیماری سے غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو موت سے غنیمت سمجھو" ۔ (بخاری)

تشریح
یہاں حدیث میں لفظ بمنکنی حرف یا کے سکون کے ساتھ بصیغہ مفرد نقل کیا گیا ہے جبکہ مشکوۃ کے ایک دوسرے نسخہ میں حرف یا کے تشدید کے ساتھ بصیغہ تثنیہ منقول ہے۔
فانک غریب (گویا تم مسافر ہو) کا مطلب یہ ہے کہ تم دنیا کی طرف رغبت نہ رکھو اس لئے کہ تم اس دنیا سے آخرت کی طرف سفر کرنے والے ہو، لہٰذا تم اس دنیا کو اپنا وطن نہ بناؤ، دنیا کی لذتوں کے ساتھ الفت نہ رکھو اور دنیا دار لوگوں سے اور ان کے اختلاط سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ تم ان سب لوگوں سے جدا ہونے والے ہو، اس دنیا میں اپنی بقا کو وہم و گمان میں بھی نہ رکھو، ان امور سے قطعا اجتناب کرو جن سے ایک مسافر غیر وطن میں اجتناب کرتا ہے اور ان چیزوں سے مشغول نہ رہو جن میں وہ مسافر کہ جو اپنے اہل و عیال اور اپنے وطن کی طرف جانے کا ارادہ رکھتا ہے، مشغول نہیں ہوتا، گویا کہ تم کلیۃ اس دنیا میں بالکل اسی طرح رہو جس طرح کہ ایک مسافر اپنے وطن اور اپنے اہل و عیال سے دور غیر وطن میں رہتا ہے۔
پھر آگے زیادہ مبالغہ کے ساتھ فرمایا کہ " بلکہ ایک راہ گیر (راستہ چلنے والے) کی طرح رہو کیونکہ مسافر تو اپنے سفر کے دوران مختلف شہروں میں قیام بھی کر لیتا ہے بخلاف راستہ چلنے والے کے کہ وہ تو کسی جگہ قیام بھی نہیں کرتا۔ لہٰذا دنیا کو نہ صرف یہ کہ سفر گاہ سمجھنا چاہئے بلکہ یہ خیال کرنا چاہئے کہ راستہ چل رہا ہوں نہ تو وطن میں ہوں اور نہ حالت سفر میں کہیں ٹھہرا ہوا ہوں۔
" جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو الخ" اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں نہ معلوم موت کا پنجہ کس وقت گردن آ دبوچے، ایک لمحے کے لئے بھی کسی زندگی کا بھروسہ نہیں ہے صبح کے وقت کسی کو معلوم نہیں کہ شام کا وقت دیکھنا بھی نصیب ہو گا یا نہیں، شام کے وقت کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ صبح تک اس کی زندگی ضرور ہی باقی رہے گی حاصل یہ کہ صبح و شام ہر وقت تم موت کو اپنے سامنے حاضر سمجھو، زندگی کی آرزؤوں اور تمناؤں کو دراز نہ کرو، عمل خیر کرنے میں پیش روی اختیار کرو دن کی عبادات اور نیک اعمال کو رات پر اور رات کی عبادات و نیک اعمال کو دن پر اٹھا نہ رکھو کیونکہ
غنیمتے شمر اے شمع وصل پروانہ
ایں معاملہ تا صبح دم نہ خواہد ماند
" صحت کو بیماری سے غنیمت جانو" کا مطلب یہ ہے کہ صحت و تندرستی کی حالت میں جس قدر ممکن ہو سکے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرو تاکہ حالت بیماری میں جب تم نیک اعمال کرنے پر قادر نہ رہوگے ویسا ہی ثواب پا سکو۔
" اپنی زندگی کو موت سے غنیمت جانو" یعنی تمہاری جتنی بھی زندگی ہے اس میں عمل ہی عمل کئے جاؤ تاکہ جب یہ زندگی اپنا وقت پورا کرے اور تم موت کی آغوش میں پہنچ جاؤ تو پھر اس کے بعد تمہاری زندگی کے انہیں اعمال کا ثواب تمہیں پہنچتا رہے۔
غنیمت داں جوانا دولت حسن جوانی را
نہ پنداری کہ ایام جوانی جاوداں باشد
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے الفاظ اذا امسیت۔۔۔ من حیاتک لموتک حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد موقوف ہے لیکن " احیاء العلوم" میں اسے مرفوعاً یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے۔ و اللہ اعلم

یہ حدیث شیئر کریں