مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ تسبیح ، تحمید تہلیل اور تکبیر کے ثواب کا بیان ۔ حدیث 833

لاحول ولا قوۃ الا باللہ جنت کا خزانہ ہے

راوی:

وعن أبي موسى الأشعري قال : كنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم في سفر فجعل الناس يجهرون بالتكبير فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا أيها الناس اربعوا على أنفسكم إنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنكم تدعون سميعا بصيرا وهو معكم والذي تدعونه أقرب إلى أحدكم من عنق راحلته " قال أبو موسى : وأنا خلفه أقول : لا حول ولا قوة إلا بالله في نفسي فقال : " يا عبد الله بن قيس ألا أدلك على كنز من كنوز الجنة ؟ " فقلت : بلى يا رسول الله قال : " لا حول ولا قوة إلا بالله "

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے کہ لوگوں نے ایک موقع پر پکار پکار کر تکبیر کہنی شروع کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا لوگو! اپنی جانوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو (یعنی اتنی بلند آواز سے تکبیر نہ کہو) کیونکہ تم (تکبیر کے ذریعہ ) کسی بہرے یا غیر موجود کو نہیں پکارتے یا نہیں یاد کرتے بلکہ اس کو پکارتے ہو جو سننے والا اور دیکھنے والا ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے (یعنی وہ تمہارے حال پر مطلع ہے تم جہاں کہیں بھی ہو چاہے تم اسے بآواز بلند یاد کرو چاہے آہستہ آواز سے اس کے لئے دونوں برابر ہیں ) اور جس کو کہ تم پکارتے ہو وہ تم میں سے ہر شخص کے ، اس کی سواری کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے اونٹ پر پا پیادہ تھا اور اپنے دل میں یہ پڑھ رہا تھا لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عبداللہ بن قیس(یہ حضرت ابوموسی کا نام ہے ) کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتلا دوں؟ میں نے عرض کیا ۔ ہاں یا رسول اللہ!ضرور بتائیے ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ خزانہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
پکار پکار کر تکبیر کہنی شروع کی، کا مطلب یہ ہے کہ کسی بلند جگہ پر چڑھتے ہوئے جو تکبیر کہنی سنت ہے اسی کو صحابہ نے چلا کر کہنا شروع کر دیا تھا یا پھر تکبیر سے ذکر بھی مراد ہو سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس موقع پر صحابہ بلند ذکر اللہ کرنے لگے تھے۔
حدیث کے آخر میں لاحول ولا قوۃ الا باللہ کو خزانہ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اسے پڑھنے والے کو بہت زیادہ ثواب ملتا ہے اور وہ اس کی برکتوں سے مالامال ہوتا ہے جس طرح دنیاوی خزانہ سے بلکہ اس نعمت کے آگے دنیا کے بڑے بڑے خزانہ کو بھی کوئی وقعت نہیں ہے۔
لا حول کے بارہ میں مشائخ لکھتے ہیں کہ یہ ذکر اعمال میں جتنی زیادہ مدد کرتا ہے اور اس سے جتنی زیادہ برکت حاصل ہوتی ہے اتنی مدد وبرکت اور کسی ذکر سے حاصل نہیں ہوتی ۔ اس کلمے کے معنی یہ ہیں گناہ سے بچنے کی طاقت اور اللہ کی عبادت کرنے کی قوت اللہ ہی کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں