مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ قریب المرگ کے سامنے جو چیز پڑھی جاتی ہے اس کا بیان ۔ حدیث 97

مصیبت کے وقت صبر و رضا کا اجر

راوی:

وعن أم سلمة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما من مسلم تصيبه مصيبة فيقول ما أمره الله به : ( إنا لله وإنا إليه راجعون )
اللهم آجرني في مصيبتي واخلف لي خيرا منها إلا أخلف الله له خيرا منها " . فلما مات أبو سلمة قالت : أي المسلمين خير من أبي سلمة ؟ أول بيت هاجر إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم إني قلتها فأخلف الله لي رسول الله صلى الله عليه و سلم . رواه مسلم

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جب کوئی مسلمان کسی (چھوٹی یا بڑی) مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ الفاظ کہتا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی طرف ہم کو واپس جانا ہے ۔ دعا (اللہم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منہا) اے اللہ ! میری مصیبت پر مجھے ثواب دے (اور اس مصیبت میں) جو چیز میرے ہاتھ سے گئی ہے اس کا نعم البدل عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اسے اس چیز کا بہتر بدلہ عطا فرماتا ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یعنی میرے پہلے شوہر) کا انتقال ہوا تو میں نے کہا کہ ابوسلمہ سے بہتر کون مسلمان ہو گا وہ ابوسلمہ جنہوں نے سب سے پہلے مع اہل و عیال کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہجرت کی اور پھر میں نے مذکورہ بالا کلمات کہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ابوسلمہ کے بدلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا' یعنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آئی)۔ (مسلم)

تشریح
انا للہ وانا الیہ راجعون کا مطلب یہ ہے کہ ہم اور جو چیزیں کہ ہماری کہلاتی ہیں سب اللہ ہی کی ملکیت اور اس کی پیدا کی ہوئی ہیں اور ہم لوٹ کر اسی طرف جانے والے ہیں گویا اس آیت میں یہ تسلیم و اقرار ہے کہ خود ہماری جان اور ہماری ذات اور وہ چیزیں جن کا ہم اپنے کو مالک سمجھتے ہیں اور وہ ہمارے اختیار میں ہیں اور ہماری طرف ان کی نسبت کی جاتی ہے وہ سب کی سب حقیقت میں اللہ ہی کی ملکیت میں ہے ہمارے پاس تو وہ صرف عاریتا ہیں۔ اللہ ہی کی طرف سے ہماری ابتداء ہوئی اور اس کی طرف ہماری انتہا بھی ہے۔
لہٰذا جو شخص اس مضمون کو اپنے قلب و دماغ میں راسخ کرے اور جس مصیبت میں وہ مبتلا ہو اس مصیبت پر صبر و رضا کے دامن کو پکڑے رہے تو اس کے لئے وہی مصیبت کی ہر مصیبت آسان و سہل ہو جاتی ہے لیکن اتنی بات جان لینی چاہئے کہ مصیبت و بلاء پر جزع و فزع کے ساتھ اس آیت کو محض زبان سے ادا کرنا چنداں مفید نہیں ہے۔
اگر کسی شخص کو یہ اشکال پیدا ہو کہ مذکورہ بالا آیت و کلمات کے پڑھنے کا حکم بیان نہیں فرمایا تو پھر ارشاد گرامی کے اس جزء ، فیقول ما امرہ اللہ بہ ( اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ کہے) کا کیا مطلب ہے؟ تو اس کا جواب مختصر طور پر یہ ہو گا کہ جب اس آیت اور مذکورہ بالا کلمات کے پڑھنے والے کی فضیلت بیان فرما دی تو گویا یہ حکم ہی فرمایا گیا ہے۔
لفظ " اجرنی" ہمزہ (الف) کے جزم اور جیم کے پیش کے ساتھ بھی منقول ہے۔ اور ہمزہ کے زبر اور جیم کے زیر کے ساتھ بھی منقول ہے مگر دونوں کا معنی و مراد ایک ہی ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس ارشاد فلما مات ابوسلمہ (جب ابوسلمہ کا انتقال ہوا الخ) کا مطلب یہ ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ پہلے سے سن رکھی تھی، چنانچہ جب میرے خاوند ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وفات پائی تو آپ کے حکم کی بجا آوری کی خاطر اور فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے میں نے چاہا کہ یہی کلمات پڑھو مگر میرے دل میں یہ خیال ہوا کہ حضرت ابوسلمہ سے بہتر اور کون شخص ہو سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ ابوسلمہ کے بدلہ میں مجھے بطور خاوند عطا فرمائے گا۔ چنانچہ ام سلمہ حضرت ابوسلمہ کی فضیلت بیان کرتی ہیں کہ جو لوگ ہجرت کر کے مدینہ گئے تھے۔ ان میں حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی وہ سب سے پہلے مرد حق آگاہ تھے جنہوں نے اپنے اہل و عیال سمیت ہجرت کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ پھر یہ کہ حضرت ابوسلمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی بھی تھے اس کے بعد حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ باوجود اس خلجان کے میں نے مذکورہ کلمات پڑھے جس کے سبب سے مجھے دنیا و آخرت کی سب سے عطیم سعادت و فضیلت حاصل ہوئی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آئی جو افضل البشر ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں