مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جہاد میں لڑنے کا بیان ۔ حدیث 1048

جنگ مکروفریب نام ہے

راوی:

وعن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " الحرب خدعة "

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جنگ مکروفریب (کا نام ) ہے۔" (بخاری ومسلم )

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ جنگ میں لشکر کی زیادہ تعداد اور بہت لڑنا کار آمد ومفید نہیں جتنا مکروفریب مفید ہوتا ہے ، جس کو آج کے مہذب الفاظ میں " حکمت عملی " بھی کہتے ہیں ۔ اسی مکروفریب یا حکمت عملی کا کرشمہ ہوتا ہے کہ پوری جنگ ایک ہی داؤ سے ختم ہو جاتی ہے جو داؤ کھاتا ہے مارا جاتا ہے اور داؤ مارنے والا جنگ پر غالب آ جاتا ہے ۔چنانچہ بہترین کمانڈر وہی کہلاتا ہے جو میدان جنگ میں اپنی تدبیر اور حکمت عملی سے دشمن کی بڑی سے بڑی فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کر دے ۔
اگرچہ علماء اسلام نے متفقہ طور پر کفار کے ساتھ جانے والی جنگ میں مکروفریب کو جائز قرار دیا ہے لیکن اس بارے میں کچھ حدود بھی مقرر کی ہیں تا کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات پر کوئی حرف نہ آئے چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ مکروفریب کا رستہ اختیار کرنے کی صورت میں پہلی بات تو یہ ملحوظ ہونی چاہئے کہ کھلا ہوا جھوٹ نہ بولا جائے اور یہ کہ کسی بھی ایسی صورت میں مکر و فریب نہ کیا جائے جس میں مسلمانوں کی طرف سے دیا ہوا عہد امان توڑا جائے ۔ پھر علماء نے " فریب دینے " کی کچھ صورتیں بھی متعین کر دی ہیں مثلًا اس طرح فریب دیا جائے کہ اسلامی لشکر میدان جنگ سے ہٹ جائے یا جنگ بند کر دے تا کہ دشمن غافل ہو جائے اور یہ سمجھ لے کہ اسلامی لشکر جنگ سے بھاگ گیا ہے اور پھر دشمن کی اس غفلت سے فائدہ اٹھا کر اس یکبارگی حملہ کر دیا جائے ، اس طرح کی ایسی کوئی بھی حکمت عملی اختیار کی جائے جس میں مذکورہ بالا دونوں امور کا لحاظ ہو ۔
حدیث میں مذکور لفظ " خدعتہ " اصل میں تو خ کے پیش اور دال کے جزم کے ساتھ یعنی خدعۃ " ہے لیکن زیادہ فصیح خ کے زبر کے ساتھ یعنی خدعۃ ہے جس کے معنی یہی ہیں کہ لڑائی ایک ہی فریب (داؤ) سے ختم ہو جاتی ہے ۔ لیکن یہ لفظ خ کے زیر کے ساتھ (یعنی لفظ فریب کا اہم نوع خدعۃ اور خ کے پیش اور دال کے زبر کے ساتھ یعنی خدعۃ بھی منقول ہے ، اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ " جنگ بہت دھوکے میں ڈالنے والی ہے " یعنی جو لوگ دشمن کے مقابلہ پر جاتے ہیں ان کے دل میں طرح طرح کے خیال پیدا ہوتے ہیں لیکن جب وہ میدان جنگ میں پہنچتے ہیں اور لڑائی ہوتی ہے تو ان کے خیالات کے برعکس نتائج ظاہر ہوتے ہیں ۔ کوئی شخص فتح پانے اور دشمن کو مار ڈالنے کا خیال لے کر جاتا ہے مگر میدان جنگ میں شکت کا سامنا کرتا ہے اور خود مارا جاتا ہے اسی طرح کوئی شخص شکست وناکامی کے مایوس کن خیالات لے کر جاتا ہے مگر وہاں جنگ کا پانسہ پلٹ جاتا ہے اور وہ کامیاب وکامران ہو کر آتا ہے غرضیکہ جنگ اسی طرح دھوکے اور فریب میں مبتلا کرنے والی چیز ہے

یہ حدیث شیئر کریں