مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جہاد میں لڑنے کا بیان ۔ حدیث 1063

نئی کمک لانے کی غرض سے میدان جنگ سے بھاگ آنا جائز ہے

راوی:

وعن ابن عمر قال : بعثنا رسول الله صلى الله عليه و سلم في سرية فحاص الناس حيصة فأتينا المدينة فاختفينا بها وقلنا : هلكنا ثم أتينا رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلنا : يا رسول الله نحن الفارون . قال : " بل أنتم العكارون وأنا فئتكم " . رواه الترمذي . وفي رواية أبي داود نحوه وقال : " لا بل أنتم العكارون " قال : فدنونا فقبلنا يده فقال : " أنا فئة من المسلمين "
وسنذكر حديث أمية بن عبد الله : كان يستفتح وحديث أبي الدرداء " ابغوني في ضعفائكم " في باب " فضل الفقراء " إن شاء الله تعالى

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی جگہ جہاد کرنے کے لئے ) ہمارا ایک لشکر بھیجا (وہاں پہنچ کر ہمارے لشکر کے) لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ، چنانچہ ہم مدینہ واپس آئے تو (مارے شرم وندامت کے ) اپنے گھروں میں چھپ کربیٹھ گئے اور ہم نے (آپس میں اپنے دل میں ) کہا کہ " دشمنوں کے مقابلہ سے بھاگ کر ہم نے جو گناہ کیا ہے اس کی وجہ سے گویا ' ہم تو ہلاک ہو گئے پھر تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا کہ (یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ہم تو میدان چھوڑ کر بھاگ آنے والے لوگ ہیں ؟ ' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے " (نہیں ) " بلکہ تم دوبارہ حملہ کرنے والے لوگ ہو اور میں تمہاری جماعت ہوں ۔" (ترمذی)
اور ابوداؤد نے بھی ایسی روایت نقل کی ہے ۔ اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ " نہیں " بلکہ تم دوبارہ حملہ کرنے والے لوگ ہو ۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں (جب ہم نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی جواب طلب کرنے یا کوئی سرزنش کرنے کے بجائے اس شفقت آمیز انداز میں ہماری ہمت بڑھائی ہے تو فرط عقیدت ومحبت سے ) ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کا بوسہ لیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں مسلمانوں کی جماعت ہوں ۔"

تشریح :
" عکر " کے معنی ہیں " لوٹنا " جنگ میں واپس چلے جانا " اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی لشکر اپنی کمزوری محسوس کرتا ہو اور وہ دشمن کے مقابلہ سے اس نیت کے ساتھ بھاگ آئے کہ اپنے مرکز سے نئی مدد لے کر پھر میدان جنگ میں آئیں گے تو یہ گناہ نہیں اور چونکہ تم لوگ اسی نیت کے ساتھ میدان جنگ سے بھاگ آئے ہو اس لئے ندامت اور شرمندگی محسوس کرنے کی کوئی بات نہیں ہے ۔
" میں مسلمانوں کی جماعت ہوں " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عظمت وبرکت کی بناء پر اپنی تنہا ذات شریف کو ایک پوری جماعت قرار دیا جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ آیت (ان ابراہیم کان امۃ) ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا اپنی مرکزیت کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ میری ذات مسلمانوں کے لئے منبع قوت وطاقت ہے ، جہاں سے انہیں مدد ونصرت حاصل ہوتی ہے لہٰذا اے ابن عمر ! تم اس عارضی پسپائی سے ہراساں اور دل گرفتہ نہ ہو میں تمہارا بھی مدد گار وحامی اور ناصر ہوں ۔
وسنذکر حدیث امیۃ بن عبداللہ کان یستفتح وحدیث ابی الدرداء ابغونی فی ضعفائکم فی باب فضل الفقرآء ان شاء اللہ تعالیٰ
" اور امیہ ابن عبداللہ کی روایت کان یستفتح اور ابودرداء کی روایت ابغونی فی ضعفائکم ہم انشاء اللہ فضل الفقراء کے باب میں ذکر کریں گے ۔"

یہ حدیث شیئر کریں