مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان ۔ حدیث 1100

غلام کو مال غنیمت میں سے تھو ڑا بہت دیا جا سکتا ہے

راوی:

وعن عمير مولى آبي اللحم قال : شهدت خيبر مع ساداتي فكلموا في رسول الله صلى الله عليه و سلم وكلموه أني مملوك فأمرني فقلدت سيفا فإذا أنا أجره فأمر لي بشيء من خرثي المتاع وعرضت عليه رقية كنت أرقي بها المجانين فأمرني بطرح بعضها وحبس بعضها . رواه الترمذي وأبو داود إلا أن روايته انتهت عند قوله : المتاع

اور حضرت عمیر ابی اللحم کے آ زاد کردہ غلام تھے کہتے ہیں کہ میں اپنے مالکوں کے ساتھ غزوہ خیبر میں شریک ہوا ہوں ( اس غزوہ کے لئے روانگی کے وقت ) میرے مالکوں نے میرے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی ( یعنی انہوں نے میری تعریف وتوصیف کی اور عرض کیا کہ میدان جنگ میں لڑنے کے لئے یا خدمت کی غرض سے عمیر کو بھی ساتھ لے چلیے ) نیز انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتایا کہ میں ایک مملوک ( غلام ) ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( میرے مالکوں کی درخواست منظور فرمائی اور ) مجھ کو حکم دیا کہ میں مسلح ہو جاؤں مجاھدین کے ساتھ شامل رہوں ، چنانچہ مجھے تلوار سے مسلح کیا گیا ( یعنی تلوار میری گردن میں ڈال دی گئی ) میں ( جب چلتا تو صغر سنی کی وجہ سے یا اپنے کو تاہ قد ہونے کے سبب ) اس تلوار کو زمین پر گھسیٹتا ہوا چلتا ، پھر ( دشمنوں پر غلبہ حاصل کر لینے کے بعد مال غنیمت کی تقسیم شروع ہوئی تو ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال غنیمت میں سے تھوڑا بہت مجھے بھی دئیے جانے کا حکم صادر فرمایا ۔ نیز (ایک موقع پر ) میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا وہ منتر پڑھ کر سنایا جو میں دیوانگی کے مریضوں پر پڑھا کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کے بعض حصوں کو موقوف کر دینے اور بعض حصوں کو باقی رکھنے کا حکم دیا ۔ اس روایت کو ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد کی روایت لفظ " المتاع" پر پوری ہو گئی ہے ۔"

تشریح :
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمیر جو منتر جانتے تھے اس سے بعض کلمات اسلامی عقائد کے منافی ہوں گے ، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو ترک کر دینے کا حکم دیا البتہ جو کلمات اسلامی عقائد وتعلیمات کے منافی نہیں تھے ان کو باقی رکھنے کی اجازت دے دی ۔

یہ حدیث شیئر کریں