مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان ۔ حدیث 1115

مال غنیمت میں حقیر ترین چیز کی خیانت مستو جب مواخذہ ہے

راوی:

وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : دنا النبي صلى الله عليه و سلم من بعير فأخذ وبرة من سنامه ثم قال : " يا أيها الناس إنه ليس لي من هذا الفيء شيء ولا هذا ورفع أصبعه إلا الخمس والخمس مردود عليكم فأدوا الخياط والمخيط " فقام رجل في يده كبة شعر فقال : أخذت هذه لأصلح بها بردعة فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " أما ما كان لي ولبني عبد المطلب فهو لك " . فقال : أما إذا بلغت ما أرى فلا أرب لي فيها ونبذها . رواه أبو داود

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ( ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مال فئی میں آئے ہوئے ) ایک اونٹ کے پاس تشریف لائے اور اس کے کوہان کے ( دو ایک ) بال اکھاڑ کر فرمایا " لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ اس مال فئی میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے اور ۔ ( ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس انگلی پر وہ بال تھے ، لوگوں کو دکھانے کے لئے ) اس انگلی کو اٹھا کر فرمایا کہ یہ ( مال بھی اتنا معمولی حصہ بھی ) میرے لئے نہیں ہے البتہ خمس یعنی پانچویں حصے کا میں حقدار ہوں لیکن خمس بھی ( میری ذات پر خرچ نہیں ہوتا بلکہ ، تمہارے ہی اوپر خرچ کیا جاتا ہے ( یعنی خمس کا مال تمہاری ہی بھلائی میں خرچ ہوتا ہے بایں طور کہ اس سے تمہارے لئے ہتھیار اور گھوڑے وغیرہ حاصل کئے جاتے ہیں ) لہذا (اگر تمہارے پاس مال غنیمت میں کا ) سوئی داگہ بھی ہو تو اس کو ) کا اجر جمع کرا دو ۔" ( ایک شخص جس کے ہاتھ میں بالوں کی رسی کا ایک ٹکڑا تھا ، کھڑا ہوا اور کہا کہ " میں نے رسی کے اس ٹکڑے کو اپنے پاس رکھ لیا تھا تا کہ اس کے ذریعہ پالان کے نیچے کی کملی کو ( گانٹھ کر ) ٹھیک کر لو ( اب ) اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جہاں تک اس چیز کا سوال ہے جو میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصے کی ہے تو وہ تمہاری ہے ( یعنی اس ٹکڑے میں سے جو کچھ میرے خاندان بنو ہاشم اور ان کے حلیف وساتھی بنو عبد المطلب کے لوگوں کے حصے کا ہے وہ تو ہم نے تمہیں بخش دیا لیکن اس میں سے جو کچھ ہمارے علاوہ دوسرے مجاہدین کا حصہ اس کے بارے میں تم جانو ، اگر تم ان سے بھی ان کے حصے معاف کرا لو گے تو کوئی مؤ اخذہ نہیں ہوگا ، اور اگر ان کے حصے معاف نہیں کرائے تو قیامت کے دن پکڑے جاؤ گے ہے ۔" اس شخص نے ( یہ سن کر کہا ) کہ جب یہ رسی ( گناہ کی ) اس حد تک پہنچ گئی ہے جو میرے سامنے ہے تو پھر مجھ کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے اور ( یہ کہہ کر ) اس نے اس رسی کو پھینک دیا ۔" ( ابوداؤد )

یہ حدیث شیئر کریں