مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ خرید و فروخت کے مسائل و احکام ۔ حدیث 14

مال حرام کا حکم

راوی:

وعن عبد الله بن مسعود عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " لا يكسب عبد مال حرام فتيصدق منه فيقبل منه ولا ينفق منه فيبارك له فيه ولا يتركه خلف ظهره إلا كان زاده إلى النار . إن الله لا يمحو السيئ بالسيئ ولكن يمحو السيئ بالحسن إن الخبيث لا يمحو الخبيث " . رواه أحمد وكذا في شرح السنة

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ حرام مال کما کر اس میں سے صدقہ وخیرات کرتا ہو اور اس کا وہ صدقہ قبول کر لیا جاتا ہو یعنی اگر کوئی شخص حرام ذرائع سے کمایا ہوا مال صدقہ وخیرات کرے تو اس کا صدقہ قطعًا قبول نہیں ہوتا اور نہ اسے کوئی ثواب ملتا ہے اور نہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شخص اس حرام کو اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتا ہو اور اس میں اسے برکت حاصل ہوتی ہو یعنی حرام مال میں سے جو بھی خرچ کیا جاتا ہے اس میں بالکل برکت نہیں ہوتی اور جو شخص اپنے مرنے کے بعد حرام مال چھوڑ جاتا ہے اس کی حیثیت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں رہتی کہ وہ مال اس شخص کے لئے ایک ایسا توشہ بن جاتا ہے جو اسے دوزخ کی آگ تک پہنچا دیتا ہے اور یہ بات یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ برائی کو برائی کے ذریعہ دور نہیں کرتا بلکہ برائی کو بھلائی کے ذریعہ دور کرتا ہے اسی طرح ناپاک مال ناپاک کو دور نہیں کرتا یعنی حرام مال برائی کو دور نہیں کرتا بلکہ حلال مال برائی کو دور کرتا ہے (شرح السنۃ)

تشریح :
اللہ کی پناہ مال و زر کی ہوس انسان کو کتنا اندھا بنا دیتی ہے کہ وہ اس چند روزہ دنیا کی جائز و ناجائز آسائشوں کی خاطر عاقبت کی کبھی نہ ختم ہونیوالی زندگی کو تباہ و برباد کر لیتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ جس مال و زر کی خاطر وہ اپنی زندگی کو عزت و آبرو کی بڑی سے بڑی نیلام گاہ میں لا کھڑا کرتا ہے جس کے تنیجہ میں کبھی جھوٹ بولتا ہے کبھی مکروفریب سے کام لیتا ہے کبھی دوسروں کا حق غصب کرتا ہے کبھی غریبوں کا خون چوستا ہے یہاں تکہ کہ اپنے دین و ایمان کا سودا کرتا ہے اپنے ضمیر کو گروی رکھتا ہے اپنی عزت کو داؤ پر لگاتا ہے اور انسانی شرف وعظمت کی ساری حدوں کو پار کر جاتا ہے آخر کار ان تمام ذرائع اور حرام طریقوں سے کمایا ہوا وہی مال وزر اپنے کمانے والے کے لئے بعد مرگ ایک ایسا توشہ اور ذریعہ بن جاتا ہے جو اسے جہنم کی آگ تک پہنچا دیتا ہے کیونکہ اول تو حرام ذرائع سے کمانے اور پھر اس کمائی سے فائدہ اٹھانے کا گناہ اس پر ہوتا ہے اس کے علاوہ مرنے کے بعد وہ جو کچھ حرام مال وزر چھوڑ جاتا ہے وہ یکے بعد دیگرے اس کے وارثوں کی ملکیت میں جاتا ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے وہ سب گناہ ومعصیت میں مبتلا ہوتے ہیں اور انجام کار اس حرام مال کے ذریعہ قیامت تک صادر ہونے والے گناہوں کی سیاہی اس کے نامہ اعمال کو داغدار کرتی رہتی ہے۔
(ان اللہ لا یمحوا لسئی) یہ جملہ مستانفہ یعنی ایک علیحدہ جملہ ہے جو بمنزلہ تعلیل عدم قبول یعنی مال حرام کے صدقہ کے قبول نہ ہونے کی علت کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ حرام مال میں سے صدقہ دینا ثواب کا ذریعہ تو کیا ہوتا یہ خود ایک برائی اور گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ برے اعمال کو برائیوں کے ذریعہ دور نہیں کرتا یعنی اگر کوئی یہ چاہے کہ اپنے حرام مال میں سے کچھ اللہ کے نام پر صدقہ دے کر اپنے گناہوں میں تخفیف کا سامان کرے تو یہ ناممکن ہے کیونکہ حرام مال میں سے صدقہ دینا خود گناہ ہے بلکہ بعض علماء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی حرام مال میں سے صدقہ وخیرات کرے اور پھر اس پر ثواب کی امید رکھے تو وہ کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے نیز اگر کسی فقیرومحتاج کو یہ معلوم ہو جائے کہ اسے صدقہ دینے والا بطور صدقہ جو مال دے رہا ہے وہ حرام ذرائع سے حاصل کیا گیا ہے اور اس کے باوجود وہ صدقہ دینے والے کے لئے دعا کرے تو وہ بھی کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔
(ولکن یمحوا السیئی بالحسن) کا تعلق ما قبل کے جملہ سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں میں تخفیف یا گناہوں کی بخشش تو نیک اعمال اور اچھے کاموں کے ذریعہ ہوتی ہے مثلا حلال میں سے صدقہ کرنا ایک نیک عمل ہے جو شخص اپنے حلال مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا اسے اس کا ثواب بھی ملے گا اور اس کے گناہ بھی دور کئے جائیں گے گویا اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے آیت (اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّ يِّاٰتِ) 11۔ہود : 114) (بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کرتی ہیں) اور یہ سب جملے اصل حدیث کی آخری عبارت (ان الخبیث) کی تمہید ومقدمہ کے طور پر ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں