مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ غصب اور عاریت کا بیان ۔ حدیث 166

جانور کا عاریۃ مانگ لینا جائز ہے

راوی:

وعن قتادة قال : سمعت أنسا يقول : كان فزع بالمدينة فاستعار النبي صلى الله عليه و سلم فرسا من أبي طلحة يقال له : المندوب فركب فلما رجع قال : " ما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا "

اور حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ ایک دن (ایک دن اس خیال سے کہ کفار کا لشکر مدینہ کے قریب آگیا ہے) مدینہ میں گھبراہٹ اور خوف کی ایک فضا پیدا ہوگئی ہے۔ (یہ دیکھ کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہ کا گھوڑا کہ جسے مندوب یعنی سست کہا جاتا تھا عاریۃً مانگا اور اس پر سوار ہو کر تحقیق حال کے لئے مدینہ سے باہر نکلے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو فرمایا کہ میں نے خوف وگھبراہٹ کی کوئی چیز نہیں دیکھی ہے نیز میں نے اس گھوڑے کو کشادہ قدم یعنی تیز رفتار پایا ہے ( بخاری ومسلم)

تشریح :
حضرت ابوطلحہ کا گھوڑا پہلے بہت ڈھیلا اور سست رفتار تھا اسی واسطے اس کا نام ہی مندوب یعنی سست رکھ دیا گیا تھا مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے وہ گھوڑا بڑا چاق وچوبند اور تیز رفتار ہو گیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی جانور کو عاریۃً مانگنا اور اسے اپنے استعمال میں لانا جائز ہے نیز کسی جانور کو کسی نام سے موسوم کر دینا بھی جائز ہے اسی طرح سامان جنگ کا نام رکھنا بھی جائز ہے۔
یہ حدیث جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت وبہادری اور کمال جانبازی کو ظاہر کرتی ہے کہ جب دشمن کی فوج کے مدینہ کے قریب آجانے کے خوف سے پورے مدینہ میں اضطراب وگھبراہٹ کی ایک عام فضا پیدا ہو گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بے خوف ہو کر تحقیق حال کے لے تن تنہا مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے وہیں یہ حدیث اس بات کی بھی غمازہے کہ دشمنوں کی ٹوہ لینی اور ان کے حالات پر مطلع ہونے کے لئے سعی کرنا ضروری ہے ۔ نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی خوف واضطراب کے موقع پر خوف کے خاتمہ کی خوشخبری لوگوں کو دینا مستحب ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں